جزیرہ، آزادی اور پندرہ بھینسیں

جزیرہ، آزادی اور پندرہ بھینسیں
ایف ایس سی کس کا مخفف ہے، یہ تک پتہ نہیں تھا اور ہم گورنمنٹ ڈگری کالج بھمبر میں داخلہ لے چکے تھے۔ بلکہ داخلہ کروایا گیا تھا۔ جانے کیوں ابا کو لگتا تھا کہ ہم ڈاکٹر بن جائیں گے۔ اور ہم ایسی کسی خوش فہمی میں مبتلا بالکل بھی نہیں تھے۔

گاؤں کے ہائی سکول سے دسویں پاس کر چکے تھے مگر ابھی تک سکول کی ان سختیوں کے زیرِ اثر تھے جہاں ڈنڈا استاد ہوتا ہے اور سخت جانی (یا ڈھیٹ پنا کہہ لیں) ایک نعمت۔

ایک طرف سکول کی سختی تھی تو دوسری طرف ہمارے ابا بھی چھوٹے موٹے خدا ہی تھے۔ ان کی ایک گھوری سے بڑے بڑوں کے دل تیز ہو جاتے تھے۔ سو ہم ایک جزیرہ تھے جسے چاروں طرف سے vikings نے چوبیس گھنٹے گھیرا ڈال کے رکھا ہوا تھا۔

پھر جب کالج جانا شروع ہوا تو ہم صبح پہلی گاڑی گاؤں سے لیتے جس کے اندر کالج جاتی لڑکیاں بیٹھی ہوتی تھیں اور ہم پیچھے لٹک کے جاتے تھے۔ پھر آگے سے ایک ویگن لیتے یہاں بھی لڑکیاں بیٹھی ہوتی تھیں اور ہم بھی زیادہ تر بیٹھ کے ہی سفر کرتے تھے۔

کالج دو منزلہ پرانی عمارت پہ مشتمل تھا۔ صفائی تھی اور عملہ دوستانہ۔ ایک عدد ہاسٹل بھی تھا جہاں فوجی جوانوں کا قبضہ تھا۔ صرف ایک پروفیسر صاحب کو وہاں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی تھی۔

کالج کا گراؤنڈ پہلے پڑتا تھا پھر کالج کی عمارت۔ گراؤنڈ کافی بڑا تھا اور ہمیں یہی سب سے زیادہ پسند آیا۔

آزادی جو 14 اگست 1947 کو لی گئی تھی، ہمیں اس دن پتہ چلی تھی جب ہم دوسرے دن کالج پہنچے۔ پہلا دن تو سبھی کلاسز میں مختلف پروفیسرز کو اپنا تعارف کرواتے گزر گیا، یہ پہلی بار ہوا تھا کہ ہم اپنے بارے میں بولنے لگے اور الفاظ دم توڑ گئے۔ میں، میں کر کے پہلی کلاس میں تعارف جو شروع ہوا، تو آخری کلاس تک ہم رواں ہو چکے تھے۔ اسی دن پتہ چلا کہ اب کلاس میں آؤ نہ آؤ، کوئی حاضری نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، نہ ہی کوئی ابا کو شکایت لگائے گا۔

یہ جزیرہ اب آزاد تھا۔ تازہ ہوائیں آتی تھیں۔ اور سرشاری سی سرشاری تھی۔

جی تو آزادی جو دوسرے دن کالج کے گراؤنڈ سے شروع ہوئی تو کالج کے اندر پروفیسرز روم کے سامنے ابا کے تھپڑ مارنے کی کوشش پہ جا کر رکی۔

سارا دن کالج کا گراؤنڈ ہوتا، مونگ پھلی ہوتی، تاش اور لڈو ہوتی اور ہم ہوتے یا کالج کے باہر بنے چائے ڈھابے کی جلیبی اڑتی اور پکوڑے بٹتے۔ لونڈے کرکٹ کھیلتے اور ہم قصے کہانیاں سنا کرتے۔

ایک دن انگلش کے پروفیسر طارق سلیم نے ہم سب "اقبال کے شاہینوں" کو گراؤنڈ میں وزٹ کیا اور بیٹھ کے مونگ پھلیاں توڑنے لگے۔ اور فرمانے لگے کہ او کھوتیو (گدھو) یہ جو اللہ نے سر دے رکھا ہے، صرف تیل لگانے کو نہیں دیا، اس کے اندر ایک شے ہے، جو پلک جھپکتے میں ہر شے سامنے لا دیتی ہے جیسے وہ حضرت سلیمان نبی کا درباری لاتا تھا۔

باقیوں کی خبر نہیں مگر ہم سراپا کان بنے ہوئے تھے۔

فرمانے لگے کہ دیکھو، سبھی آنکھیں بند کرو۔ کر لی گئیں۔ پھر کہا ’’سوچو اور بند آنکھوں سے دیکھو کہ اسلام آباد کی خوبصورت سڑک ہے، کالی سڑک کے ارد گرد ہرے ہرے درخت، سفید پھولوں سے لدے کھڑے ہیں۔ مرسڈیز دوڑ رہی ہے پھر اچانک لیاقت سٹیڈیم کے سامنے آپ گاڑی سے نکلتے ہو اور اندر لڑکیوں کا سوئمنگ کا مقابلہ چل رہا ہے۔ آپ سوئمنگ پول کے پاس کھڑے ہو، ایک لڑکی سوئمنگ سوٹ میں چھپاک پانی میں چھلانگ لگاتی ہے، یہ چھینٹے آپ کے منہ پہ پڑتے ہیں‘‘۔

ہم فوراً منہ پونچھنے لگے۔ پروفیسر صاحب بول رہے تھے۔ ’’سب نظر آ رہا ہے نا‘‘۔ سب ایک ساتھ بولے، ’’جی جی سب نظر آ رہا ہے‘‘۔

پروفیسر صاحب نے آنکھیں کھولنے کو کہا اور فرمایا، ’’دیکھا یہ جو سر کے اندر شے ہے، بڑے کام کی ہے، بھمبر کے خشک گراؤنڈ میں بیٹھے اسلام آباد کی سوئمنگ سوٹ میں لڑکیاں تک دکھا دیتا ہے۔ گدھو، اسے کام میں لایا کرو، بیٹھے رہتے ہو، سوچا بھی کرو، کچھ بھی جیسا بھی، سوچا کرو‘‘۔

ہم نے اس نصیحت پہ کچھ زیادہ ہی عمل شروع کر دیا کہ پھر سارا دن گراؤنڈ میں لڑکوں کے ساتھ گپیں لگاتے، کبھی کسی پتھر پہ اکیلے بیٹھ کے سوچوں کے گھوڑے دوڑاتے رہتے، سکندر اعظم کیا بیچتا تھا ہمارے آگے، ہم ساری دنیا فتح کر لیتے۔ زمین مٹھی میں بند کر لیتے اور آسمان کو فاتحانہ غرور سے دیکھتے تو وہ بادل بن کے ادھر ادھر بھاگ لیتا۔

ہم جسمانی اور ذہنی طور پہ آزاد تھے اور آزادی کے دن بہت جلدی میں ہوتے ہیں۔ پیپرز ہوئے اور نتیجہ بھی آ گیا۔ اور ہماری اپنی ہی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔ صرف اردو میں پاس ہوئے تھے۔

ابا نے دو تین بار رزلٹ کا پوچھا، ہم ٹال دیتے کہ ابھی آیا نہیں۔ مگر کب تک، آخر کب تک؟

پھر ایک شام کھانا کھاتے ابا نے اعلان کیا کہ وہ کل میرے کالج آئیں گے۔ ہم اسی زمین میں گڑ رہے تھے جو کبھی ہماری مٹھی میں ہوتی تھی۔ ساری رات کروٹیں تھیں اور سَر کے اندر والی شے کے تخیلات۔

صبح ہم کالج پہنچے اور تاشفین کو گراؤنڈ کے اس پار دیوار پہ چڑھا دیا کہ جیسے ہی ٹویوٹا کرولا LHI 2255 نظر آئے، اطلاع دے دیجیو۔ دو لڑکوں کو بھمبر شہر بھیجا کہ کسی طرح رزلٹ کارڈ دو نمبر، کوئی فوٹو کاپی والا بنوا دے مگر وہ کم بخت بھی منہ لٹکائے واپس آ گئے۔ ادھر تاشفین نے چیخنا شروع کر دیا وائٹ کرولا، وائٹ کرولا۔ اور ہم بھاگ کے اردو کی کلاس میں گھس گئے۔

اردو کے پروفیسر رحمت علی جو ہماری ٹوٹی پھوٹی شاعری کے معترف تھے، ہمیں دیکھ کے حیران ہوئے کہ میاں آج کدھر مگر لیکچر جاری رکھا۔ کلاس ختم ہوئی تو سامنے پروفیسرز روم تھا جس کے باہر سارے پروفیسر کھڑے تھے، بیچ میں ابا سرخ آنکھیں لیے بول رہے تھے، ارد گرد اور چھت پہ سٹوڈنٹس کا مجمع تھا۔ پروفیسر رحمت نے مجھے دیکھا اور "اچھا اسی لئے کلاس کو شرف بخشا گیا تھا آج" کہہ کے نکل لیے۔

ابا نے ہمیں دیکھا اور تھپڑ تانے ہماری طرف لپکے۔ پروفیسر طاہر خلیل نے ان کا ہاتھ نہ پکڑا ہوتا تو بھمبر کالج دو دن تو اسی تھپڑ کی گونج سے جھومتا رہتا۔

جیسے تیسے گھر پہنچے، سارا راستہ ابا کی گالیاں اور طعنے تھے اور ہم سوچ رہے تھے کہ اب کیا۔

گھر پہنچتے ہی اماں نے ابا کی شکل سے صورتحال بھانپ لی، فوراً ٹھنڈے پانی کا گلاس ان کے سامنے لا رکھا۔ میں سر جھکائے سامنے بیٹھا اور ابا بولے جا رہے تھے۔ پھر ابا نے جوتا اٹھایا مگر اماں کی بروقت مداخلت سے جوتا واپس رکھ دیا گیا۔

کچھ دیر بعد اماں نے وہی سوال پوچھا جو ہمارے اندر بھی تھا کہ اب کیا؟

ابا نے سزا سناتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد کالج بند، اسے پندرہ کوئی بھینسیں لے کے دوں گا، انہیں سنبھالا کرے گا اب۔ بس بہت ہو گیا۔

پندرہ بھینسیں۔ صبح سے شام تک گھر سے باہر، رات بھی ڈیرے پہ سویا کریں گے۔ ابا جسے سزا سمجھ کے سنا رہے تھے، ہم اسے آزادی سمجھے، سر جھکائے مسکرا رہے تھے۔

مصنف ناروے میں مقیم ہیں۔