'لوز ٹاک' سے متعلق انور مقصود کے بیان سے معین اختر کی توہین ہوئی؟

گذشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر بحث چل رہی ہے کہ معروف سکرپٹ رائٹر انور مقصود صاحب نے دعوٰی کیا ہے کہ ان کے شہرہ آفاق پروگرام 'لوز ٹاک' میں معروف اداکار معین اختر مرحوم جو بھی گیٹ اپ کرتے تھے، جو بھی لہجہ اپناتے تھے، ان کی جیسی بھی بدن بولی ہوتی تھی، سب کچھ سکرپٹ میں درج ہوتا تھا۔

'لوز ٹاک' سے متعلق انور مقصود کے بیان سے معین اختر کی توہین ہوئی؟

ایک بڑا سکرپٹ رائٹر وہ ہوتا ہے جو اپنے لکھے ہوئے سکرپٹ میں کردار نگاری کرتے ہوئے چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی نظر انداز نہ کرے۔ جیسے اگر ایک سین ہے جس میں ہیرو اور ہیروئن بیٹھ کر رومانوی گفتگو کر رہے ہیں تو منظر کشی کرنا سکرپٹ رائٹر کا کام ہے۔ پہلے بیان کرے کہ پہاڑی مقام ہے، ہیرو درختوں کے پیچھے سے نمودار ہو تو کیمرا کیسے اسے فوکس کرے، پھر ہیروئن کو کیسے فوکس کرنا ہے، کیمرا کہاں سے دونوں کو کور کرے، پھر ہیرو کی بدن بولی کیا ہے، ہیروئن کی بدن بولی کیسے دکھائی جائے اور مکالمے کا آغاز کیسے ہوتا ہے۔ یہ سب سکرپٹ میں لکھا ہو تو تب جا کر بڑا سکرپٹ رائٹر نظر آتا ہے۔

کسی بھی فلم یا ڈرامے کی عمارت تب بنتی ہے جب بنیاد میں مضبوط سکرپٹ ہوتا ہے۔ سکرپٹ رائٹر ہوتا ہے راستہ دکھانے والا، ڈائریکٹر ہوتا ہے راستہ سجانے والا اور اداکار ہوتا ہے سجاوٹ کو چار چاند لگانے والا۔ بہترین اداکار اور با صلاحیت ڈائریکٹر بھی ناکام ہو جاتا ہے اگر سکرپٹ رائٹر کمزور ہو۔

اس ساری تمہید کا مقصد یہ تھا کہ گذشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر بحث چل رہی ہے کہ معروف سکرپٹ رائٹر انور مقصود صاحب نے دعوٰی کیا ہے کہ ان کے شہرہ آفاق پروگرام ' لوز ٹاک' میں معروف اداکار معین اختر مرحوم جو بھی گیٹ اپ کرتے تھے، جو بھی لہجہ اپناتے تھے، ان کی جیسی بھی بدن بولی ہوتی تھی، سب کچھ سکرپٹ میں درج ہوتا تھا۔ معین اختر اس لکھے ہوئے سکرپٹ کو اپنی شاندار اداکاری سے چار چاند لگا دیتے تھے۔

ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ انور مقصود کی اس بات سے معین اختر جیسے بڑے اداکار کی توہین ہوئی ہے۔ میں ذاتی طور ایسا نہیں سمجھتا۔ سطور بالا میں سکرپٹ کے حوالے سے تمہید باندھنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہ باور کرایا جائے کہ بڑا سکرپٹ رائٹر اپنے کام میں کس قدر یکتا ہوتا ہے اور وہ اپنے لکھے ہوئے میں ہر چیز بتا دیتا ہے۔ اب یہ اداکار کا کام ہے کہ وہ اپنی جاندار اداکاری سے اس لکھے ہوئے کو امر کر دے اور قابل ڈائریکٹر اس لکھے ہوئے کو اور اداکار کی جاندار اداکاری کو اپنی مہارت اور قابلیت سے اس طریقے سے شوٹ کرے کہ فلم یا ڈرامہ ماسٹر پیس بن جائے۔

میں سمجھتا ہوں کہ صرف انور مقصود ہی نہیں، خلیل الرحمٰن قمر بھی یہی بات کرتے ہیں کہ جب میں سکرپٹ لکھ دیتا ہوں تو اس میں ایک ایک بات بیان کر دی جاتی ہے۔ کسی اداکار، کسی ڈائریکٹر کو اجازت نہیں دیتا کہ اس سکرپٹ میں ایک نکتے، قومے یا فل سٹاپ کو بھی تبدیل کرے۔ مکالمے تو بہت اوپر کی بات ہے۔

یہی کچھ بھارتی فلم انڈسٹری کی کامیاب ترین سکرپٹ رائٹر جوڑی سیلم۔جاوید بھی کہتے تھے کہ جب انہوں نے شہرہ آفاق فلم زنجیر کا سکرپٹ لکھا تو اس وقت بالی ووڈ پر راجیش کھنہ کی حکومت تھی جن کے لیے سیلم۔جاوید پہلے 'ہاتھی میرے ساتھی' جیسی سپر ہٹ فلم لکھ چکے تھے مگر جب زنجیر کا سکرپٹ مکمل ہوا تو انہوں نے ڈائریکٹر پرکاش مہرہ کو کہہ دیا کہ یہ سکرپٹ راجیش کھنہ کے لیے نہیں ہے۔ سیلم۔جاوید امیتابھ بچن سے ان کی فلم 'بمبئی ٹو گوا' دیکھ کر بہت متاثر ہو چکے تھے۔ سیلم۔جاوید کے مطابق امیتابھ بچن ہی 'زنجیر' کا اینگری ینگ مین بن سکتا تھا، اور کوئی بھی نہیں۔

اسی طرح کا بیان خلیل الرحمٰن قمر نے دیا کہ جب انہوں نے اپنے لازوال ڈرامے 'میرے پاس تم ہو' کا سکرپٹ لکھا تو وہ ہمایوں سعید کے لیے لکھا تھا۔ برسوں پہلے جب خلیل الرحمٰن قمر نے 'لنڈا بازار' لکھا تو ان کے ذہن میں بابر علی ہی تھا۔ پھر 'لال عشق' بھی اسی کا تسلسل تھا۔

لہٰذا وہ احباب جو انور مقصود کی کہی بات پر تنقید کر رہے ہیں وہ حقیقت میں سکرپٹ رائٹنگ کی الف ب سے بھی آشنا نہیں ہیں۔ انور مقصود کے لکھے مربوط سکرپٹ کو معین اختر نے اپنی جاندار اداکاری سے چار چاند لگا دیے ہیں۔ معین اختر ایک ناقابل فراموش اداکار تھے۔ وہ کامیڈی کے آئن سٹائن تھے۔ ان پر یہ فقرہ درست ثابت ہوتا ہے؛ 'ایک آدمی ہزار چہرے'، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ہزار چہروں کو زبان دہنے والے انور مقصود تھے۔

حرف آخر یہ کہ سلور سکرین کا اینگری ینگ مین گریٹ امیتابھ بچن ہو، ٹی وی کا رومانوی پرنس ہمایوں سعید ہو یا پھر ایک آدمی ہزار چہرے والا معین اختر ہو، یہ سب اپنی لازوال اداکاری کے باعث اس لیے مقبول ترین ہوئے کہ ان کے پیچھے ان کی زبان سے نکلے مکالمے لکھنے والے قابل ترین سکرپٹ رائٹرز سیلم۔جاوید، خلیل الرحمٰن قمر اور انور مقصود تھے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔