دو سال پہلے 31 دسمبر کو زندگی کی بازی ہارنے والے قادر خان کا تذکرہ کیا جائے تو چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ کا بسیرا ہو جاتا ہے۔ وہ ایک اداکار ہی نہیں، سکرپٹ رائٹر، ڈائیلاگ رائٹر اور استاد بھی تھے۔ جن کی زندگی میں کئی طوفان آئے لیکن وہ اپنی قابلیت اور صلاحیت کے بل بوتے پر کبھی بھی ڈوبے نہیں۔ زندگی کی تلخیوں کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پیتے گئے۔ جبھی ان کے لکھے ہوئے جملوں میں سیاہی کی جگہ ان کا خون شامل رہا۔ جہاں 300 سے زیادہ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، وہیں 250 فلموں کے سکرپٹ بھی لکھے۔ قادر خان کا تعلق افغانستان سے رہا۔ ان سے پہلے تین بھائی صرف آٹھ برس کی عمر تک پہنچنے کے بعد موت کی آغوش میں جا سوئے تو والدین نے آب و ہوا تبدیل کرنے کی ٹھانی اور قندھار سے ممبئی کا سفر طے کیا اور وہاں ایک ایسے علاقے میں رہائش اختیار کی جہاں بدمعاشوں کا راج تھا۔
والد صاحب پیش امام تھے جو گھر کی پسماندگی اور غربت کو دور کرنے میں ناکام رہے تو اس جوڑے میں طلاق ہو گئی۔ ایسے میں بلوچستان سے نانا اور ماموں آئے، جن کے اصرار پر والدہ نے کارپینٹر سے دوسرا بیاہ رچایا لیکن اس کے باوجود غربت کے سائے گھر پر گہرے سے گہرے ہوتے چلے گئے۔
قادر خان سوتیلے والد کے اکسانے پرسگے والد کے پاس گھر کے خرچے کی رقم وصول کرنے جاتے اور گھنٹوں کسی گداگر کی طرح ان کے سامنے فریادی بن کر کھڑے رہتے اور جو معمولی سی بھی رقم ملتی، اس سے ایک وقت کی پیٹ کی آگ بجھائی جاتی۔ گھر میں فاقے پڑتے اور ایسے میں والدہ کا اصرار تھا کہ کچھ بھی ہو جائے قادر خان پڑھائی نہ چھوڑیں۔
ایک بار دوستوں کے اُکسانے پر قادر خان نے کتابوں کو ایک طرف رکھ کر محنت مزدوری کرنے کا ارادہ کر لیا۔ وہ کہتے کہ یہ فیصلہ کر کے میں سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔ پلٹ کر دیکھا تو والدہ تھیں، جنہوں نے نم آنکھوں سے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ تم پڑھائی چھوڑ کر کسی فیکٹری میں کام کرنے جا رہے ہو لیکن اس کمائی سے اس گھر کے اندھیرے دور نہیں ہوں گے۔ مستقل حل صرف یہ ہے کہ تم پڑھو۔ صرف ’پڑھ‘۔
قادر خان کے مطابق ’پڑھ‘ کے یہ الفاظ کسی پگھلے ہوئے سیسے کی طرح ان کی رگوں میں اترتے چلے گئے۔ اور جو قدم وہ مزدوری کے لئے بڑھا رہے تھے، وہ تعلیم کی طرف اٹھنا شروع ہو گئے اور یہاں تک کہ ایک وقت وہ بھی آیا جب وہ سول انجئنیر تک بن گئے۔
قادر خان کا کہنا تھا کہ آٹھ برس کی عمر میں سکول اور چھوٹے موٹے کام سے فرصت ملتی تو رات میں گھر کے سامنے یہودی قبرستان میں بیٹھ کر دن بھر ہونے والے واقعات کو جملوں کی ادائیگی کے ذریعے دُہراتے۔ ایک سٹیج ڈائریکٹر نے چھپ کر انہیں سنا تو ڈرامے میں کام کرنے کی پیش کش کر دی۔ ایسی جم کر اداکاری دکھائی کہ تماشائیوں نے کندھوں پر اٹھا لیا۔
یوں وہ چھوٹے موٹے کردار نبھانے لگے۔ کالج میں پڑھ رہے تھے تو یار دوستوں کے کہنے پر اداکاری کا آڈیشن دیا اور کامیاب ہوئے لیکن سکرپٹ پڑھا تو اس میں خامیاں نظر آئیں۔ ڈائریکٹر سے کہا کہ اگر اجازت دیں تو اس میں تبدیلی کر دوں اور چند گھنٹوں کی محنت کے بعد پورے ڈرامے کا سکرپٹ ہی تبدیل کر ڈالا اور جب ڈائریکٹر کو دکھایا تو وہ خوشی سے اچھل پڑا۔ یوں قادر خان کی اداکاری کے ساتھ ساتھ سکرپٹ کی بھی ہر جگہ واہ واہ ہونے لگی۔
قادر خان کا کہنا ہے کہ زندگی میں پہلی بار جب دلیپ کمار کا فون آیا تو ان کے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے۔ گفتگو کرتے ہوئے الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ 1974 کا واقعہ ہے جب وہ کالج میں پڑھاتے تھے اور ان کے ایک سٹیج ڈرامے کی دھوم مچی تھی۔ دلیپ صاحب نے اسے دیکھنے کی فرمائش کی لیکن قادر خان نے یہ شرط رکھی کہ وہ پورا ڈراما دیکھ کر ہی ہال سے جائیں گے۔ دلیپ صاحب نے حامی بھر لی اور جب آئے تو سٹیج ڈرامے کے اختتام پر سب کے سامنے انہیں گلے لگایا اور اعلان کیا کہ قادر خان ان کی اگلی دو فلموں ’سگینہ‘ اور ’بیراگ‘ میں کام کریں گے اور یہیں سے انہوں نے فلموں میں قدم رکھا۔
فلموں کی سکرپٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے کہ پہلی فلم ’جوانی دیوانی‘ کے ڈائیلاگ انہوں نے صرف چار گھنٹے میں لکھے۔ فلم ہٹ ہوئی تو ان کا نام بطور سکرپٹ رائٹر مشہور ہو گیا۔ من موہن ڈیسائی تک ان کی شہرت پہنچی تو انہوں نے ’روٹی‘ کا کلائمکس لکھوایا۔ قادر خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے انتہائی مختصر عرصے میں اسے لکھا اور جب من موہن ڈیسائی تک پہنچے تو وہ پہلے سمجھے کہ میں ایسے ہی سر کھپانے آ گیا ہوں، ڈانٹ کر بھگانا چاہا لیکن جب کلائمکس سنایا گیا تووہ اچھل پڑے۔
اس وقت جب قادر خان 25 ہزار روپے معاوضہ لیتے تھے، انہیں سوا لاکھ روپے نقد اور انعام میں ایک ٹی وی دیا اور پوری فلم نگری میں ڈھول پیٹنا شروع کر دیا کہ اب سب سکرپٹ رائٹرز کی چھٹی ہونے والی ہے۔ من موہن ڈیسائی کے ساتھ ساتھ قادر خان نے پرکاش مہرہ اور پھر ڈیوڈ دھون کی بھی کئی فلموں کے سکرپٹ اور ڈائیلاگز لکھے۔ ابتدا میں ولن کے کردار نبھائے لیکن جب ان کے بچوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ان کے ہم عمر یہ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں کہ ان کے والد کو ہیرو، فلم کے اختتام میں خوب مارتا ہے تو دھیرے دھیرے انہوں نے منفی کردار کے بجائے مزاحیہ کرداروں کو ترجیح دینا شروع کر دی۔
قادر خان نے ایک دور میں امیتابھ بچن، رشی کپور، پھر جتندر اور متھن چکرورتی اورآخری دنوں میں گووندا کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا۔ شکوہ رہا کہ جب وہ فلموں سے دور ہو گئے تو کئی اپنوں نے نگاہیں پھیر لیں۔ جو ان کے کندھوں پر چڑھ کر شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچے، وہ ان سے راہ فرار اختیار کرنے لگے۔ حد تو یہ ہے کہ طویل عرصہ فلم نگری کو دینے کے باوجود انہیں حکومتی سطح پر کوئی اعزاز نہیں ملا اوروفات کے بعد ہی انہیں ’پدما شری‘ کے لئے منتخب کیا گیا۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ امیتابھ بچن کو ’امیتابھ بچن‘ بنانے میں قادر خان کا کردار نمایاں رہا ہے، جن کی لکھی ہوئی فلمیں اور ڈائیلاگز ادا کر کے امیتابھ بچن، بالی وڈ کے شہنشاہ بنے۔ ان فلموں میں مقدر کا سکندر، عدالت، امر اکبر انتھونی، خون پسینہ، کالیا، مسٹر نٹور لال، لاوراث، ہم اور یارانہ نمایاں ہیں۔
ہوتا یہ کہ جو کردار امیتابھ بچن کو ادا کرنا ہوتا، قادر خان اس کی باقاعدہ اداکاری کر کے، ڈائیلاگ ریکارڈ کر کے آڈیو کیسٹ امیتابھ بچن کو روز بجھوا دیتے۔ امیتابھ اسی کے مطابق اپنا تلفظ اور انداز اختیار کرتے۔ قادر خان کے مطابق جب ان کے منع کرنے کے باوجود امیتابھ بچن سیاست میں آئے اور رکن اسمبلی بنے تو ان کے رویے میں واضح فرق آ گیا۔ اس ’یارانہ‘ میں دارڑیں آنے لگیں۔ سب امیتابھ کو ’سر جی‘ کہتے لیکن قادر خان کا ’جی‘ نہ ہوا کہ وہ دوست کے لئے منہ سے ’سر جی‘ نکالیں۔ تبھی امیتابھ بچن نے انہیں اپنے گروپ سے بھی نکال دیا۔