دلیپ کمار نے گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور کو گھر چلنے کا اشارہ دیا۔ وہ خاصے خوش تھے۔ عید کا سماں تھا اور نئے لباس میں دلیپ کمار اور زیادہ پرکشش اور پروقار لگ رہے تھے۔ بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اچانک انہیں جیب میں رکھے اُس لفافے کا خیال آیا جو ہدایتکار اور پروڈیوسر چندو لال شاہ نے انہیں بطور ’ عیدی‘ دیا تھا ۔
وہ پروڈیوسر کے گھر میں ان سے مل کر آرہے تھے۔ جنہوں نے خاص طور پر دلیپ کمارکو آج عید ملنے کے لیے گھر میں دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ دلیپ کمار نے لفافے کو ٹٹولا تو انہیں تجسس ہوا ۔ گھر جانے سے پہلے انہوں نے سوچا کہ ذرا کھول کر تو دیکھیں تو صحیح کہ آخر عیدی کتنی ہے۔ لفافہ کھولا تو یکدم دلیپ کمار کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ ان کے ماتھے پر شکنیں پڑنے لگیں۔ سر کو کھجاتے ہوئے وہ گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ گاڑی کی کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو گھر قریب تھا لیکن انہوں نے بلند آواز سے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’جہاں سے آئے تھے، وہاں واپس لے چلو۔‘ ڈرائیور ہکا بکا تھا لیکن صاحب کا حکم سر آنکھوں پر جبھی اُس نے موڑ کاٹتے ہوئے گاڑی واپس چندو لال شاہ کے گھر کی طرف دوڑانے لگا۔
ذکر ہے 1953کا ، جب پروڈیوسر اور ہدایتکار چندو لال شاہ کی فلم ’ فٹ پاتھ‘ میں دلیپ کمار اداکاری کے جوہر دکھا رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا، جب دلیپ کمار کی بھارتی فلموں میں حکمرانی چل رہی تھی۔ پرڈویوسرز ان کے نام پر سرمایہ لگانے کو تیار رہتے۔ جگنو، شہید، میلہ، انداز، جوگن، آرزو، بابل، دیدار، ترانہ، آن اور داغ جیسی شہرہ آفاق فلمیں اُن کے نام کے ساتھ جڑی تھیں۔یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہوگا کہ وہ بھارتی فلموں کے نمبر ون اداکار تصور کیے جاتے تھے۔ ’فٹ پاتھ‘ میں ان کی ہیروئن کوئی اور نہیں مینا کماری تھیں۔ضیا سرحدی نے جہاں فلم کی کہانی لکھی تھی وہیں وہ اِس کی ڈائریکشن بھی دے رہے تھے۔ فلم کے لیے موسیقار محمد زوہیر خیام ہاشمی پہلی بار ’ خیام ‘ کے نام سے موسیقی ترتیب دے رہے تھے۔ دلیپ کمار کو اس فلم میں کام کرنے کا مشورہ محبوب خان نے دیا تھا۔ جنہوں نے ایک ملاقات میں دلیپ کمار کو بتایا کہ ان کے دوست چندو لال شاہ ایک فلم بنارہے ہیں اور وہ اُن کی فلم میں ضرور کام کریں۔ دلیپ کمار کے لیے چندو لال شاہ کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے۔ جن کو رنجیت اسٹوڈیو کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین تخلیقی ذہن کے حامل ہدایتکار اور پروڈیوسر تسلیم کیا جاتا تھا۔
گاڑ ی میں بیٹھے ہوئے دلیپ کمار نے ہاتھوں میں اب تک عیدی کا لفافہ مضبوطی سے تھاما ہوا تھا۔ وہ بے چینی کے ساتھ انتظار میں تھے کہ کسی طرح گاڑی چندو لال شاہ کے گھر تک پہنچ جائے۔ اُنہیں یاد آرہا تھا جب محبوب صاحب کے کہنے پر وہ چندو لال شاہ سے ملنے گئے تھے تو وہ ان کی شخصیت اور گفتگو سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ دلیپ صاحب کے لیے وہ اس لیے بھی قابل احترام تھے کیونکہ وہ محبوب صاحب کے بہت اچھے دوست تھے۔ فلم کی کہانی جب انہیں سنائی گئی تو وہ دلیپ کمار کے دل کو چھو گئی۔ رضا مندی ظاہر کی تو ’فٹ پاتھ‘ میں کام کرنے کے لیے دلیپ کمار کو 20ہزار روپے میں سائن کیا گیا۔ دلیپ کمار کے سامنے کنٹریکٹ رکھا گیا تو انہوں نے آنکھ بند کرکے اس پر دست خط کردیے۔
گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ چندو لال شاہ کے گھر کے سامنے رک گئی تھی۔ دلیپ کمار گاڑی سے اتر کر تیز تیز قدم بڑھاتے اندر داخل ہوئے۔ ڈرائنگ روم میں ہی ان کا ٹکراؤ چندو لال شاہ سے ہوگیا۔ دلیپ کمار نے جیب سے لفافہ نکال کر ان کے سامنے رکھا اور دریافت کیا ’یہ کیا ہے شاہ صاحب؟ یہ تو میں ہرگز نہیں لوں گا‘ چندو لال شاہ نے انتہائی اطمینان اور سکون کے ساتھ جواب دیا ’ یہ تمہاری عیدی‘۔ا ب ایک بار پھر دلیپ کمار نے ایک سوال داغا ’یہ آپ میرے ساتھ زیادتی کررہے ہیں۔‘
چندو لال شاہ نے مسکراتے ہوئے کہنا شروع کیا ’زیادتی تو آپ نے ہمارے ساتھ کی تھی۔ ‘ ایک لمحے کے لیے وہ رکے تو دلیپ کمار کے چہرے پر پریشانی کے آثار اور نمایاں ہونے لگے۔ان کے ذہن میں لفظ ’زیادتی‘ جیسے اٹک کر رہ گیا لیکن ان کے کانوں میں پھر چندو لال شاہ کی آواز گونجی ’ زیادتی یہ کی کہ تم نے 20ہزار روپے کے کنٹریکٹ پر سائن کردیا۔ جبکہ تم تو کسی بھی فلم کے لیے 30ہزار روپے میں سائن ہوتے ہو ۔ تم نے ہمیں بتایا ہی نہیں۔ورنہ ہم اسی رقم میں سائن کرتے۔ اور یہ چیک جو 10ہزار روپے کا ہے۔ وہ بس میری طرف سے عیدی سمجھ کر رکھ لو۔‘ دلیپ کمار نے بولنا شروع کیا ’اگر آپ کو عیدی دینی تھی تو سو دوسو دے دیتے۔ یہ بہت بڑی رقم ہے۔میں اسے واپس کرنے کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں ۔‘ چندو لال شاہ نے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا ’ عیدی کو کبھی واپس نہیں لوٹاتے۔‘ اس واقعے نے جہاں دلیپ کمار کی نگاہ میں چندو لال شاہ کی قدر منزلت میں اضافہ کیا وہیں دلیپ کمارکے بلند کردار اور اخلاقی اقدار کو بھی۔
جنہوں نے چندو لال شاہ کے احترام اور محبوب خان کے دوست ہونے کی بنا پر کم معاوضے میں بھی فلم میں کام کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ جبکہ ملنے والی ’خطیر عیدی‘ کو واپس کرنے کے لیے چندو لال شاہ کے گھر کا رخ کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ دلیپ کمار کی ’فٹ پاتھ‘ جب پردہ سیمیں کی زینت بنی تو اس فلم نے کیسے کامیابی کی راہ دیکھی۔ موسیقار خیام کو بھارتی فلموں میں قدم جمانے کا موقع اسی فلم کے ذریعے ملا جن کا ’فٹ پاتھ‘ کے لیے ترتیب دیا ہوا گیت ’شام غم کی قسم‘ تو آج تک ذہنوں میں محفوظ ہے۔ جسے طلعت محمود کی مدھر اور سریلی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔