دلیپ کمار یا یوسف خان صاحب بھارتی سنیما کے ایسے ہر دلعزیز اداکار ہیں جنہوں نے خود کو ہر کردار میں امر کردکھایا۔ اداکاری کے ایسے گہرے نقش چھوڑے کہ ان کے پیش رو اداکار انہی کے نقش قدم پر چلے۔ زندگی کی ستانوے بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ اور ان دنوں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کبھی کبھار یہ خبریں بھی کانوں میں سننے کو ملتی ہیں کہ دلیپ کمار ناسازی طبعیت کا شکار ہیں اور پھر ان کی دکھ سکھ کی ساتھی سائرہ بانو پوری تن دہی کے ساتھ ان کا علاج معالجہ کراتی نظر آتی ہیں اور پرستاروں کو تسلی دیتی ہیں کہ ’صاحب ٹھیک ہیں‘۔ چاہنے والوں کے دل سے بس ایک ہی صدا نکلتی ہے کہ اللہ یوسف صاحب کی عمر دراز کرے، انہیں اور صحت دے۔
’ٹریجڈی کنگ‘ کی چھاپ مٹانے کی کوشش
دیکھا جائے تو یوسف صاحب نے ہمیشہ عروج کا زمانہ دیکھا۔ بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ یوسف صاحب اپنے اوپر سے ’ٹریجڈی کنگ‘ کی چھاپ مٹانے کی خواہش رکھتے تھے۔ بلکہ وہ المیہ اور درد میں ڈوبے ہوئے کردار کر کر کے اکتاہٹ کا شکار ہو گئے تھے لیکن بدقسمتی یہ تھی کہ فلم ساز انہیں انہی کرداروں میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ مختلف نفسیاتی پریشانیوں نے یوسف صاحب کو ذہنی طور پر بے چین اور اداس کر دیا تو انہوں نے برطانوی ماہر نفسیات سے مشورہ لیا۔ جن کا کہنا تھا کہ وہ کچھ وقت کے لئے ہلکے پھلکے اور مزاحیہ کردار ادا کریں۔ جبھی یوسف صاحب نے ’کوہِ نور، شبنم، گوپی، آزاد، نیا دور اور رام اور شیام جیسی ہلکے پھلکے موضوع کی فلموں میں طبع آزمائی کی۔
راج کپور بمقابہ دلیپ کمار
راج کپور سے ان کا مقابلہ خوب کیا جاتا اور جب راج کپور ’سنگم‘ بنا رہے تھے تو سب سے پہلے انہوں نے اپنے مقابل دلیپ صاحب کو کاسٹ کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن دلیپ صاحب نے یہ شرط رکھی کہ فلم کی ایڈٹنگ وہ خود کروائیں گے۔ غالباً یوسف صاحب کو یہ خدشہ تھا کہ ان کے کردار پر قینچیاں نہ چل جائیں۔ راج کپور نے یہ معاملہ بھانپ لیا اور انکار کر دیا۔ دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ ’مدر انڈیا‘ میں ہدایتکار محبوب خان نے ’برجو‘ کے کردار کو یوسف صاحب کو ذہن میں رکھ کر رکھا تھا۔ لیکن انہوں نے کئی فلموں کی ہیروئن نرگس کا بیٹا بننے سے انکار کیا تو یہ کردار سنیل دت کی جھولی میں آ گرا۔
مدھو بالا، اور ناکام محبت
کامنی کوشل کی طرح مدھو بالا نے بھی دلیپ کمار کو ٹوٹ کر چاہا لیکن یہ محبت پروان نہ چڑھ سکی۔ مدھو بالا کے والد عطا اللہ کا خیال تھا کہ یہ رشتہ زیادہ عرصے نہیں رہے گا اور عین عروج کے دور میں مدھو بالا کی یہ شادی ان کے کرئیر کے لئے تباہ کن ثابت ہوگی۔ جو عطا اللہ کے لئے مالی خسارے کا بھی باعث بن سکتی تھی۔
’نیا دور‘ کی ہیروئن پہلے مدھو بالا ہی تھیں جن کو اڈوانس رقم بھی فراہم کر دی گئی۔ لیکن جب فلم کی عکس بندی بھوپال میں شروع ہونے والی تھی تو مدھو بالا کے والد عطا اللہ نے پروڈیوسر اور ہدایتکار بی آر چوپڑہ پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے جان بوجھ کر لوکیشن بھوپال رکھی ہے تاکہ مدھو بالا اور دلیپ کمار کھل کر رومانس کریں اور اسی لئے اب ان کی بیٹی اس تخلیق میں کام نہیں کریں گی۔ پروڈیوسر کو یوسف صاحب کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بات بڑھتی گئی اور معاملہ کورٹ کچہری کی چوکھٹ پر آ گیا۔ مجبوراً مدھو بالا اور ان کے والد کو رقم واپس کرنی پڑی لیکن یہیں سے یوسف صاحب اور مدھو بالا کے دلوں میں دراڑیں پڑنے لگیں۔
مدھو بالا چاہتی تھیں کہ یوسف صاحب تنہائی میں ہی سہی، ان کے والد سے معذرت کر لیں۔ لیکن یوسف صاحب ٹھہرے پٹھان جنہوں نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ تلخیاں اتنی بڑھیں کہ بعد میں مدھو بالا اور یوسف صاحب نے ’مغل اعظم‘ میں جب ایک ساتھ کام کیا تو دونوں کے درمیان بات چیت تک بند تھی اور عطا اللہ خان ان کی خاص نگرانی بھی کراتے۔
22 سال چھوٹی لڑکی سے شادی
سائرہ بانو اور دلیپ کمار کی شادی کا فسانہ بھی عجیب تھا۔ سائرہ بانو، پری چہرہ نسیم بانو کی صاحبزادی تھیں، برطانیہ سے تعلیم حاصل کی اور پھر والدہ کی طرح اداکاری کی طرف آئیں۔ کئی فلمیں کھڑکی توڑ کامیابی کر گئیں تو فلم ساز دلیپ اور سائرہ بانو کی جوڑی کو بڑے پردے کی زینت بنانے کی آرزو بیان کرتے رہے لیکن دلیپ کمار یہ کہہ کر ’ناں‘ کردیتے کہ وہ ان سے عمر میں خاصی چھوٹی ہیں، خود سائرہ بانو، یوسف صاحب کی بہت بڑی مداح رہیں۔
اسی دوران سائرہ بانو،شادی شدہ راجندر کمار کی محبت میں گرفتار ہو گئیں۔ معاملہ بگڑتا ہی چلا گیا اور سائرہ بغاوت تک پر اتر آئیں۔ ایسی صورتحال میں نسیم بانو نے دلیپ کمار کی مدد لی اور بیٹی کو سمجھانے کی درخواست کی۔ جسے یوسف صاحب رد نہ کر سکے۔ دونوں کی ملاقات ہوئی تو یوسف صاحب یہاں دل ہار بیٹھے۔ اور پھر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور بات شادی تک جا پہنچی۔ ایسے میں موسیقار نوشاد جو یوسف صاحب کے گہرے دوست تھے، انہوں نے مشورہ دیا کہ یہ درست اقدام نہیں ہوگا کیونکہ دونوں کی عمروں میں خاصا فرق ہے اور اس رشتے پر خود یوسف صاحب کے گھر والوں کو تحفظات ہیں لیکن یوسف صاحب نے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ شادی کریں گے تو سائرہ سے ہی۔ جس پر نوشاد صاحب نے خود یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس شادی میں شریک نہیں ہوں گے اور ایسا ہی ہوا۔
جب یہ بیاہ رچایا جارہا تھا تو یوسف صاحب کی عمر 44 جب کہ سائرہ بانو کی 22 سال تھی۔ اور شادی کے بعد دونوں نے پھر کئی فلموں میں ایک ساتھ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 1980 میں یوسف صاحب نے حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والی خاتون اسما سے بھی چھپ چھپا کر شادی کی تھی، لیکن پھر مختصر دورانئے کی شادی طلاق پر ختم ہوئی۔
’قمیض اتار کر کام نہیں کروں گا‘
شہرہ آفاق ہدایتکار ستیہ جیت رائے کی بڑی خواہش تھی کہ یوسف صاحب ان کی کسی فلم میں کام کریں۔ ایک مووی کا کردار خود یوسف صاحب کو پسند آیا۔ اور انہوں نے ہاں بھی کر دی۔ مسئلہ تب شروع ہوا جب پتہ چلا کہ اس کردار کو ادا کرنے کے لئے پوری فلم میں بغیر قمیض کے اداکاری کرنا تھی کیونکہ ایک غریب مزدور ہیرو کی کہانی تھی۔ لیکن یوسف صاحب نے ستیہ جیت رائے سے یہی کہا کہ وہ بغیر قمیض کے سکرین پر نہیں آناچاہتے تھے۔ ہدایتکار بھی اڑے رہے کہ وہ گیٹ اپ میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ یوسف صاحب نے انکار کر دیا۔ یہ حیران کن بات ہے کہ صرف ایک قمیض کی وجہ سے دو بڑی شخصیات یکجا نہ ہو سکیں۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یوسف صاحب نے کسی فلم میں ’آدھی آستین‘ کی قمیض تک زیب تن نہیں کی۔
’مائی نیم از جے آر ڈی ٹاٹا‘
یوسف صاحب کا ایک جہاں دیوانہ تھا۔ لیکن ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ ایک صاحب نے انہیں شناخت کرنے سے معذوری ظاہر کر دی۔ یہ دلچسپ واقعہ جہاز میں پیش آیا۔ یوسف صاحب جب سوار ہوئے تو ہر کوئی ان پر فدا ہونے کے لئے تیار تھا۔ لیکن ایک مسافر بالکل لاتعلق اور جہاز میں ہونے والی ہنگامہ خیزی سے بے نیاز تھا۔ ایسے میں جب سب یوسف صاحب کے ساتھ تصاویر اور آٹو گراف لے رہے تھے، یوسف صاحب نے اس شخص کے ساتھ بیٹھنا پسند فرمایا۔ ہیلو ہائے کے بعد یوسف صاحب نے بتایا کہ وہ فلموں میں کام کرتے ہیں۔ سوال ملا کہ ’اوہو اچھا۔۔ کیا کرتے ہیں آپ؟‘ یہ یوسف صاحب کے لئے بہت بڑا جھٹکا تھا۔ دلیپ کمار سے دریافت کیا جارہا ہے کہ وہ فلموں میں کیا کرتے ہیں۔ جواب دیا کہ میں اداکاری کرتا ہوں تو وہ صاحب بولے ’ارے واہ بہت اچھا۔۔۔‘
یوسف صاحب کے بقول انہوں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا۔ پرواز مقام تک پہنچی تو نشست سے اٹھتے ہوئے یوسف صاحب نے اپنا تعارف کرایا کہ میں دلیپ کمار ہوں۔‘ اس پر بھی اس اجنبی پر کوئی اثر نہیں ہوا اور انتہائی اکتاہٹ اور بے زاری کے ساتھ بولا ’مائی نیم از جے آر ڈی ٹاٹا‘۔ جی ہاں، بھارت کے سب سے بڑے بزنس گروپ ٹاٹا کے مالک۔ یہی وہ لمحہ تھا جب یوسف صاحب کو احساس ہوا کہ آپ کتنے بھی بڑے ہو جائیں، آپ سے بھی بڑے قد آور لوگ اس معاشرے میں موجود ہیں۔