جب کوما میں پڑے راج کپور کیلئے دلیپ کمار پشاوری کبابوں کی خوشبو لے کر گئے

دلیپ کمار کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ راج کپور کوما میں جا چکے ہیں اور انہوں نے راج کپور کو واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ انہیں ہوش میں لانے کے لیے 'نیا دور' کے سپر سٹار نے 'سنگم' کے سپر سٹار کو وہ سب کچھ یاد دلایا جو پاکستان میں گزرے دونوں کے بچپن سے متعلق تھا۔

جب کوما میں پڑے راج کپور کیلئے دلیپ کمار پشاوری کبابوں کی خوشبو لے کر گئے

یہ 2 جون 1988 کا وہ بدقسمت دن تھا جب ہندوستانی سنیما کے شو مین راج کپور نے آخری سانس لی۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد سپر سٹار راج کپور اس روز انتقال کر گئے۔ زندگی کے آخری چند روز میں ان کی صحت بگڑتی گئی اور نتیجتاً وہ کوما میں چلے گئے۔ ان آخری دنوں میں جہاں ان کے خاندان کے لوگ ان کے آس پاس موجود تھے، وہیں ان کے بہترین دوست دلیپ کمار کو بھی ان کی خراب صحت سے متعلق خبر کی گئی۔

دلیپ کمار، جو ان دنوں ایک تقریب میں شرکت کے لیے پاکستان میں موجود تھے، اپنے جگری دوست کے لیے فوراً پاکستان سے دہلی پہنچ گئے۔ تاہم دلیپ کمار کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ اپنے 'لالے دی جان' سے آخری مرتبہ مل رہے تھے۔ 'لالے دی جان' وہ پیار بھرا ٹائٹل تھا جو دلیپ کمار نے راج کپور کو دیا تھا۔

دلیپ کمار کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ راج کپور کوما میں جا چکے ہیں اور انہوں نے راج کپور کو واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ انہیں ہوش میں لانے کے لیے 'نیا دور' کے سپر سٹار نے 'سنگم' کے سپر سٹار کو وہ سب کچھ یاد دلایا جو پاکستان میں گزرے دونوں کے بچپن سے متعلق تھا۔

ماضی کی گلیوں میں لے جاتے ہوئے دلیپ کمار نے راج کپور کا ہاتھ تھاما اور پشاور میں ان کے آبائی گھر اور کبابوں کے بارے میں بات کی اور بتایا کہ کس طرح وہ صرف اپنے دوست کے لیے پاکستان سے کبابوں کی خوشبو اپنے ساتھ لائے ہیں۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

دلیپ کمار کی سوانح عمری میں رشی کپور نے خود اپنے والد کی دلیپ کمار سے آخری ملاقات کے بارے میں ایک نوٹ لکھا ہے۔ دونوں اس لمحے بے بس ہیں۔ ایک بستر پر لیٹا ہے اور دوسرا اسے بس ایک خواہش پوری کرنے کے لیے واپس لانے کے جتن کر رہا ہے۔

رشی کپور نے اپنے نوٹ میں لکھا؛ "مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کیسے وہ ( دلیپ کمار) اس کمرے میں داخل ہوئے جہاں پاپا بے ہوش پڑے تھے، انہوں نے کرسی کھینچ کر بیڈ کے نزدیک کی اور پاپا کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کرسی پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے پاپا کو بتانا شروع کیا؛ 'راج، آج بھی میں دیر سے آیا۔ معاف کر دے مجھے۔۔ میں جانتا ہوں کہ تمہیں لائم لائٹ میں رہنا اور مرکز نگاہ بننا بہت پسند ہے۔ بس بہت ہو گیا۔ اٹھ کر بیٹھو اور میری بات سنو۔ میں ابھی ابھی پشاور سے ہو کر آ رہا ہوں اور تمہیں وہ سب یاد کروانے کے لیے چپلی کبابوں کی خوشبو اپنے ساتھ لایا ہوں۔ تم اور میں اکٹھے جائیں گے اور پشاور کے اس بازار میں ایک ساتھ چہل قدمی کریں گے، اور پہلےکی طرح کبابوں اور روٹیوں کے مزے اڑائیں گے۔راج، اٹھ جاؤ اور اداکاری بند کر دو، مجھے معلوم ہے کہ تم بہت اچھے اداکار ہو"۔

اپنے نوٹ کے اختتام پر رشی کپور نے ایک دوست کی جانب سے دوسرے دوست کو الوداع کہنے والا دلخراش جملہ لکھا؛ "۔۔۔ ( دلیپ کمار نے کہا) 'راج، مینوں لے جانا ہے تُسی پشاور دے گھر دے آنگن وچ'، یعنی مجھے آپ نے پشاور والے گھر کے آنگن میں لے کر جانا ہے۔ اتنا بول کر ان کی آواز گھٹنے لگی اور اس دوران ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے"۔

اس ٹوٹتی آواز کے ساتھ دلیپ کمار کی آخری خواہش ادھوری رہ گئی۔ دلیپ کمار نے جب آخری مرتبہ راج کپور کی طرف دیکھا تو کمرے میں موجود ہر کوئی جان چکا تھا کہ شومین اب ان کے پاس واپس نہیں آئے گا۔

راج کپور 2 جون 1988 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔