کپور حویلی: شاہ محمود قریشی رشی کپور سے کیا وعدہ کب نبھائیں گے؟

کپور حویلی: شاہ محمود قریشی رشی کپور سے کیا وعدہ کب نبھائیں گے؟
پشاور کے قدیم آثار کو لاحق خطرات میں گذشتہ کچھ سالوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ درجنوں کے حساب سے تاریخی عمارتوں سمیت اندرون شہر میں کئی دہایئوں سے پشاور شہر کے زوال، ترقی اور خون خرابے کے واقعات کی امین کپور حویلی خستہ حالی کا شکار ہے، اس حویلی کا موجودہ مالک اس قدیم عمارت کو گرانے اور اس کی جگہ کمرشل مارکیٹ بنانے کا سوچ رہا ہے۔

یہ حویلی حاجی اسرار کے والد نے 1980 میں نیلامی میں بولی کے ذریعے خریدی تھی۔ اسرار گذشتہ چالیس سال سے اس حویلی  کا مالک ہے۔ اسرار کے والد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک سنار تھے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے پیسوں کی ضرورت نہیں مگر اس تاریخی عمارت کا ان کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے، اس لئے وہ اس قیمتی زمین پرکمرشل مارکیٹ بنانا چاہتا ہے۔ اگرچہ کپور خاندان نے حکومت پاکستان سے خصوصی درخواست بھی کی تھی کہ اس تاریخی عمارت کو میوزم میں تبدیل کیا جائے۔



ان عمارتوں کو اگر قومی ورثہ میں بدل دیا جائے تو سیاحت کی مد میں صوبائی حکومت زرمبادلہ کما سکی ہے۔ ہندوستان سمیت کئی ممالک میں تاریخ اور نوادرات کی بہت قدر کی جاتی ہے کیونکہ تاریخ کو زندہ رکھنے کے لئے ورثہ کو بھی مہذب ممالک میں زندہ رکھا جاتا ہے۔ ہندوستان میں بہت سے ایسے تاریخی مقامات ہیں جو تقسیم سے پہلے وہاں پر مسلمانوں نے تعمیر کیے تھے اور اب بھی اسی حالت میں انڈیا میں موجود ہیں۔ ان مقامات کی سیاحت سے ہندوستان کو ہر سال کروڑوں روپے کا فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر تاج محل سمیت کئی جگہیں ہیں۔

پاکستانی صحافی رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں تقریباً 80 فیصد ایسے مقامات ابھی بھی ہیں جو تقسیم سے سے پہلے مسلمانوں کی ملکیت تھے۔ کوئی اسے گرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے بلکہ یہ تمام عمارتیں ہندوستانی ریاست کی ملکیت ہیں اور ساتھ ساتھ تاریخ کو بھی زندہ رکھا گیا ہے۔



کپور حویلی ہی کی طرح ایک مثال کٹاس راج مندر بھی ہے جو ہندوؤں نے پانچ سو سال پہلے بنایا تھا۔ ایک وقت میں اس کے حالات بھی خراب ہوئے تھے مگر حکومت نے اس کو دوبارہ بنایا اور اب وہ ایک سیاحتی مقام بن گیا ہے جسے نہ صرف پاکستان بلکہ باہر ممالک سے لوگ دیکھنے آتے ہیں اور حکومت کو اس سے بہت فائدہ بھی ملتا ہے۔ اگر کپور حویلی کو حکومت نے دوبارہ تعمیر کیا تو یہ تاریخی ورثے کو بچانے کی طرف ایک اقدام ہوگا اور ملک کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ سیاحت کو فروغ دینا حکومرت وقت کے منشور میں شامل ہے۔

رشی کپور اور ششی کپور نے 1990 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کا بنیادی مقصد اپنی فلم ’حنا‘ کے لئے پاکستانی اداکارہ زیبا بختیار کا انٹرویو کرنا تھا۔ اس کے بعد یہ پشاور میں اپنی حویلی کو دیکھنے کے لئے حکومت پاکستان سے خصوصی آجازت لے کر پشاور گئے تھے جہاں پہنچنے پر پشاوریوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ اس دورے میں انہوں نے یہ بھی خواہش ظاہر کی تھی کہ حکومت پاکستان اس حویلی کو پرتھوی راج اور راج کپور کے نام سے میوزیم میں تبدیل کرے۔ اور کپور خاندان کے اس یاد کی پاسداری کریں اور اس کو خراب ہونے سے بچائیں۔ وطن واپسی پر وہ اپنی حویلی کے تھوڑی سی مٹی کو اپنے ساتھ لے گئے تاکہ اس کی یاد ان کے پاس ہندوستان میں موجود ہو۔ کپور خاندان اب بھی پشاور کو نہیں بھول پایا اور اب بھی ان کے دلوں میں پشاور کے لئے محبت موجود ہے۔

پچھلے سال کرتارپور راہداری کی تقریب میں بھارتی صحافیوں کو انٹریو کے دوران شاہ محمد قریشی نے بتایا کہ انہوں نے رشی کپور سے فون کال پر بات کی تھی جس میں رشی کپور نے ان سے درخواست کی تھی کہ پشاور میں ان کی حویلی کو میوزیم یا کوئی انسٹیٹیوٹ میں تبدیل کریں جس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کپور حویلی کو میوزیم میں تبدیل کرے گی۔ یہ پاکستان کی طرف سے ایک مثبت جواب تھا۔ 2016 میں حویلی کے مالک نے عمارت کو گرانے کی کوشش کی جس پر حکومت کی طرف سے ایف ائی آر بھی درج ہوئی اور ابھی کیس عدالت میں چل رہا ہے۔