سنتوش کمار اور درپن دو ایسے خوبرو اور حسین بھائیوں کی جوڑی۔ جنہوں نے پاکستانی فلموں میں اپنی مردانہ وجاہت، پرکشش شخصیت اور فطرت سے قریب تر اداکاری کے ذریعے ایک طویل عرصے تک حکمرانی کی۔ یہ دونوں ایسے سپر سٹار بھائی رہے جنہوں نے اپنے اصل نام کے بجائے فلمی ناموں سے زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ صرف یہ دونوں ہی نہیں، ان کے چھوٹے بھائیوں ایس سلیمان اور منصور بھی اسی فلم نگری سے وابستہ رہے۔ یہاں پر بھی بس نہیں۔ سنتوش کمار کی شریک سفر جہاں صبیحہ خانم تھیں تو درپن نے زندگی کا ساتھی نیر سلطانہ کو چنا۔
سنتوش اور درپن کو یہ نام رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس بارے میں فلمی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ چونکہ دونوں کا تعلق ایسے تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا جن کے والد سول سروس میں تھے اور اُس دور میں مہذب خاندان کے نوجوان اگر فلمی دنیا میں قدم رکھتے تو انہیں یہ خوف بھی ہوتا کہ خاندان پر ان کے اس قدم کا کوئی برا ثر نہ ہو، اس لئے کسی اور نام سے اداکاری کرتے۔
سنتوش اور درپن نے جب فلموں میں قسمت آزمائی تو یہ دور دلیپ کمار کی مقبولیت اور شہرت کا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر ہی چلتے ہوئے موسیٰ رضا سنتوش کمار بن گئے تو سید عشرت عباس نے درپن کے فلمی نام کا انتخاب کیا۔ اور یہ نام پھر ہر فلم کی کامیابی کی ضمانت تصور کیے گئے۔
سنتوش کمار یعنی موسیٰ رضا 25 دسمبر 1925 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ والد چونکہ سول سرونٹ تھے، اس لئے مختلف شہروں میں تعیناتی ہوتی رہتی۔ سنتوش کمار کا بچپن حیدر آباد دکن میں گزرا۔ ان کی پیدائش کے تین سال بعد ہی درپن یعنی سید عشرت عباس کا جنم ہوا۔ سنتوش کمار کبھی بھی اداکار بننے کی خواہش نہیں رکھتے تھے۔ والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سول سروس کا امتحان پاس کیا۔ ایک دوست کے اصرار پر ’آہنسا‘ اور ’میری کہانی‘ میں اداکاری دکھائی۔
تقیسمِ ہند کے بعد گھرانہ لاہور آ کر آباد ہوا تو اُس وقت تک ان کے اندر اداکار بننے کا شوق پروان چڑھ چکا تھا۔ سنتوش کمار نے پہلی بار کسی پاکستانی فلم میں کام کیا تو وہ 1950 میں آئی ’بیلی‘ تھی۔ جس میں ان کی ہیروئن کوئی اور نہیں صبیحہ خانم تھیں۔ فلم تو اس قدر کامیاب نہ رہی لیکن ان کا صبیحہ خانم کے ساتھ بطور ہیرو انداز دلوں کو چھو گیا۔ جس کے بعد بڑے پردے پر اس جوڑی کی شہرت کا نیا سفر شروع ہوا۔ دونوں نے کم و بیش 47 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان میں 30 فلمیں تو وہ ہیں جن میں یہ جوڑی مرکزی کرداروں میں جلوہ گر ہوئی۔ ان میں دو آنسو، غلام، آغوش، رات کی بات، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ نمایاں ہیں۔
یکم اکتوبر 1958 کو یہ فلمی جوڑی حقیقی زندگی میں بھی دکھ سکھ کے ساتھی بن گئی۔ سنتوش کمار کو جہاں تمغہ حسن برائے کارکردگی ملا وہیں وہ تین بار بہترین اداکار کے نگار ایوارڈ کے حقدار بھی ٹھہرے۔ سنتوش کمار صرف 56 برس کی عمر میں 11 جون 1982 کو زندگی کے اُس سفر پر جا نکلے جہاں سے کسی کی واپسی نہیں ہوتی۔
سنتوش کمار کے چھوٹے بھائی درپن نے گو کہ کم لیکن معیاری فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن وہ بھی بڑے بھائی کی طرح شہرت کے ساتویں آسمان پر رہے۔ ابتدائی دو فلموں میں سید عشرت عباس کے نام سے ہی کام کیا۔ 1957 میں ریلیز ہونے والی ’نور اسلام‘ ان کی سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ درپن کا شمار ان اداکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد بھی بھارت جا کر اداکاری کے جلوے لٹائے۔ ان میں ’عدل جہانگیر، ہیر، باراتی نامی بھارتی فلموں نمایاں ہیں۔ ان فلموں میں انہوں نے درپن کے نام سے ہی کام کیا۔ اور پھر جیسے یہی نام ان کی شناخت بن گیا۔
1960 کی دہائی میں آئی فلم ’سہیلی‘ نے تو جیسے ان کے کرئیر کو نیا موڑ دیا۔ فلم میں بہترین اداکاری دکھانے پر صدارتی ایوارڈ بھی ملا۔ مووی میں شمیم آرا اور نیر سلطانہ تھیں جب کہ درپن نے دہرے کردار نبھائے، درپن کی بہترین فلموں میں رات کے راہی، گلفام، انسان بدلتا ہے، قیدی اور آنچل شامل ہیں۔ جس طرح صبیحہ خانم اور سنتوش کمار کی جوڑی دلوں میں گھر کی ہوئی تھی، اسی طرح درپن اور نیر سلطانہ جب جب بھی بڑے پردے پر جھلملائے، دونوں نے ایک ساتھ 16 فلموں میں کام کیا اور بڑے بھائی سنتوش کمار کی طرح اُس دور کی سپر سٹار صبیحہ خانم کی ہم پلہ اداکارہ نیر سلطانہ کو اپنے دل کی رانی بنایا۔
خوش شکل اور خوش گفتار نیلی آنکھوں والے درپن صرف 52 برس کی عمر میں 8 نومبر 1980 کو پرستاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اداس چھوڑ گئے۔
یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ سنتوش کمار اور درپن، پاکستانی فلمی صنعت کے دو ایسے چمکتے دمکتے ستارے رہے، جنہوں نے اپنی اداکاری ہی نہیں، اپنے اخلاق اور مہذبانہ رویے کی بنا پر ہر کسی کو متاثر کیا۔ اُس دور کی اداکارائیں، ان دونوں بھائیوں کے ساتھ کام کرنے کے لئے بے تاب رہتیں۔ اور اداکار تو فلم نگری میں ان دونوں جیسا مقام حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہوئے اس شعبے سے وابستہ ہوتے۔