یوسف خان نے اپنا نام دلیپ کمار کیوں رکھا؟

یوسف خان نے اپنا نام دلیپ کمار کیوں رکھا؟
برصغیر کے عظیم اداکار دلیپ کمار نے 2014 میں اپنی شائع ہونے والی کتاب ’سبسٹنس اینڈ دی شیڈو‘ میں ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے سے قبل دیویکا رانی نے انہیں اپنا نام تبدیل کرنے کی تجویز دی تھی۔ انہوں نے یہ تجویز 1944 میں دی تھی جب دلیپ کمار فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے جا رہے تھے۔

تاہم، بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے دلیپ کمار نے اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اپنا نام اپنے والد کے ڈر سے تبدیل کیا تھا کیونکہ ان کے والد انٹرٹینمنٹ کے کام کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی لئے یوسف خان اپنا نام تبدیل کرنے پر راضی ہو گئے۔

انہوں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ان کے والد کے دوست لالہ بشیشر ناتھ کے صاحبزادے پرتھوی راج کپور بھی فلم اداکاری کیا کرتے تھے تو میرے والد اپنے دوست سے شکایت کرتے کہ تمہارا ہٹا کٹا، نوجوان اور صحت مند لڑکا کیا کام کرتا ہے۔ دلیپ کمار نے کہا کہ میں جب فلم میں آیا تو مجھے ان کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، ان کی طبیعت غصے والی تھی اور مجھے ان کا خوف بھی تھا۔ تو اس لئے نام تبدیل کرنے کے لئے سوچا گیا کہ کیا نام رکھا جائے، یوسف خان ہی رکھا جائے، دلیپ کمار یا باسو دیو؟ تو میں نے کہا کہ یوسف خان مت رکھیے باقی جو جی میں آئے رکھ دیجئے۔

اس سے قبل معروف اداکار نے اپنی ہی کتاب میں لکھا کہ اس وقت فلم سٹوڈیو ’بامبے ٹاکیز‘ سب سے کامیاب پروڈکشن ہاؤس تھا۔ اس کی مالکن دیویکا رانی فلم سٹار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جدید خیالات والی خاتون تھیں۔ دیویکا رانی نے اپنے آفس بلایا اور انہیں فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے سے قبل اس لئے نئے نام کی تجویز دی کہ ان کے فلمی کردار کی مناسبت سے بھارت کے عوام کے لئے انہیں دلیپ کمار پکارنا بھی آسان ہو اور اس نام سے فلم انڈسٹری میں اداکار کی پہچان بھی بن سکے۔

کتاب میں مرحوم اداکار نے لکھا کہ جب دیویکا رانی نے انہیں دلیپ کمار نام تجویز کیا تو اس وقت وہ نام کو اپنانے کے بالکل حق میں نہیں تھے اور انہوں نے دیویکا رانی سے سوال بھی کیے کہ آیا یہ نام کی تبدیلی ضروری ہے یا نہیں۔ اس پر دیویکا رانی نے وضاحت کی کہ وہ فلموں میں دلیپ کمار کا کافی کامیاب مستقبل دیکھ رہی ہیں اور فلم انڈسٹری کے لئے ایسا سکرین نام منتخب کرنا بھی مثبت ثابت ہوگا جس پر معروف اداکار نے سوچنے کے لئے وقت مانگا اور دن رات اسی بارے میں سوچتے رہے۔ بعد ازاں اداکار نے اپنی پہلی فلم ’جوار بھاٹا‘ کے پروڈیوسر ششی دھر مکھرجی سے اس بارے میں تذکرہ کیا جس پر پروڈیوسر نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اداکار کو ہمیشہ یوسف کے نام سے ہی جانیں گے البتہ فلم انڈسٹری کے لئے دلیپ کمار ایک اچھا نام ہے۔

دلیپ کمار اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ جب انہیں اداکار اشوک کمار کا اصلی نام کمد لال گنگولی معلوم ہوا تو ان کے سارے شک و شبہات دور ہو گئے اور یوسف خان نے دلیپ کمار بن کر اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ صرف یوسف خان نے اپنا نام دلیپ کمار نہیں رکھا، کمدلال گنگولی کو بھی اپنا نام عوام کے لئے زیادہ آسان اور یاد رکھنے میں سہل بنانے کی ضرورت پیش آئی۔

برطانیہ میں مقیم بھارتی پروڈیوسر، ہدایتکار اور مصنفہ نسرین مونی کبیر کے مطابق دلیپ کمار کا اپنی مسلمان پہچان کو چھپانے کا معاملہ اتنا اہم تھا نہیں جتنا بنا دیا گیا ہے۔ بہت سے اداکار اور اداکارائیں تھیں جنہوں نے اپنے نام تبدیل کیے بلکہ وحیدہ رحمان ان اداکاراؤں میں شاید سب سے پہلی تھیں جنہوں نے اپنا نام تبدیل نہیں کیا۔ لیکن مدھوبالا، مینا کماری، یہاں تک کہ نرگس نے اپنا نام تبدیل کیا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ دلیپ کمار نے خود نام کی تبدیلی کو کبھی مذہب کے حوالے سے دیکھا ہی نہیں۔ اس دور کے دیگر اداکاروں راج کپور اور دیو آنند کے ساتھ ان کی دوستی تھی، انڈسٹری میں ہندو اور مسلمان دونوں بھرے پڑے تھے، کسی کو خیال ہی نہیں آ سکتا تھا کہ ان دونوں کی آپس میں کوئی لڑائی ہے۔ رفیع اور لتا نے بے شمار گانے ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے گائے ہیں۔ انہوں نے کبھی ایسا نہیں کہا کہ آپ تو جی ہندو ہیں، آپ تو مسلمان ہیں۔ وہ اس طرح بات نہیں کرتے تھے، وہ اس طرح سوچتے ہی نہیں تھے۔ اور یہی سنیما اور اس دور کے کلچر کی خوبصورتی تھی۔