کبھی گینگز آف واسے پور کے شمشاد، کبھی بریلی کی برفی کے پریتم ودروہی یا نیوٹن کے نیوٹن کمار، ہر کردار میں جان دینے والے راج کمار راؤ نے بالی ووڈ میں اپنی الگ پہچان بنائی ہے۔
راجکمار راؤ نے بچپن میں اس مقام تک پہنچنے کا خواب دیکھا تھا۔ سکول سے شروع ہونے والے ڈراموں کا سلسلہ کالج میں تھیٹر تک جاری رہا۔ ایف ٹی آئی آئی میں سنیما کی تعلیم حاصل کی اور پھر فلموں میں مرکزی اداکار بنے۔ راج کمار راؤ بھی اس کا کریڈٹ شاہ رخ خان کو دیتے ہیں۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے راجکمار کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد بچپن سے ہی واضح تھا، وہ صرف اداکار بننا چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، " کسی اور چیز کے لیے نہ کبھی سوچا اور نہ ہی کوشش کی۔ سکول میں ہی اداکاری شروع کی، کالج میں تھیٹر کیا، پھر فلم انسٹی ٹیوٹ چلا گیا۔
راجکمار بتاتے ہیں کہ اگرچہ اس زمانے میں ایک متوسط گھرانے کے لیے اداکاری کو پیشہ سمجھنا مشکل تھا، لیکن ان کے خاندان نے ان کے خواب کو پورا کرنے میں ان کی بہت مدد کی، کبھی کسی چیز سے باز نہیں آئے اور اس کی وجہ بھی شاہ رخ خان تھے۔
انہوں نے کہا کہ " شاہ رخ خان دہلی کا لڑکا، ممبئی گیا اور اتنا بڑا سٹار بن گیا۔ ہم ان کی فلمیں دیکھ کر بڑے ہوئے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ میں بھی کر سکتا ہوں۔ تاہم میں نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے بہت سے مشکل حالات دیکھے۔
وہ اپنے والد سے متعلق ایک ایسا ہی واقعہ سناتے ہیں جب ان کے والد کی تنخواہ رک گئی تھی۔ ہم تین بہن بھائی تھے، تینوں ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ اساتذہ کا خیال تھا کہ یہ تینوں ہمہ وقت کسی نہ کسی غیر نصابی سرگرمی میں مصروف رہتے ہیں، اس لیے وہ ہم سے پیار کرتے تھے۔ اساتذہ نے ہمارا بہت تعاون کیا، انہوں نے ہمیں 2 سال تک پڑھایا، ہمارے سکول کی فیسیں دیں۔
اب بالی ووڈ میں اپنی ایک الگ پہچان بنانے والے راجکمار راؤ تقریباً 16-17 سال کی عمر میں پہلی بار ممبئی آئے تھے۔ اس وقت وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ڈانس ریئلٹی شو 'بوگی ووگی' کے آڈیشن کے لیے ممبئی پہنچے تھے۔ اس قصے کو سناتے ہوئے راجکمار کہتے ہیں، ’’بوگی ووگی کا آڈیشن چل رہا تھا، کچھ معلوم نہیں تھا، اچانک اس کا منصوبہ بنایا گیا۔ مجھے ممبئی آنا تھا، میں اس شہر کو دیکھنا چاہتا تھا۔
اس دوران راجکمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ پہلی بار ممبئی پہنچنے کے بعد وہ شاہ رخ خان کے گھر ’’منت‘‘ کے باہر بیٹھا کرتے تھے، ’’میں شاہ رخ خان صاحب کو دیکھنے منت کے پاس بیٹھا کرتا تھا، لیکن ان سے کبھی نہیں مل سکا مگر ایک بار گوری میڈم کو دیکھا جب وہ گاڑی میں کہیں جا رہی تھیں۔
راجکمار راؤ فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، پونے کے پاس آؤٹ ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ 2008 میں ممبئی پہنچے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس وقت میرے پاس پونے میں ایک بائیک تھی، جس پر میں اپنا سامان لاتا تھا۔ ہم کئی لوگ ایک چھوٹے سے گھر میں اکٹھے رہتے تھے۔ میرے پاس ایک گدا تھا، اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی میز تھی جس پر میں اپنا سامان رکھتا تھا۔
2008 اور 2010 کے درمیان راجکمار راؤ کے لیے جدوجہد کا دور تھا، اس عرصے کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ’’ایک بار میرے اکاؤنٹ میں 18 روپے تھے۔ پھر میں نے سوچا کہ کھانا کیسے کھاؤں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میں ایف ٹی آئی آئی سے ہوں، بہت مضبوط کمیونٹی، اس لیے میں نے ایک دوست کو فون کیا اور کہا کہ میں کھانا کھانے آرہا ہوں۔ پھر گھر والوں سے کہا کہ کچھ پیسے بھیج دیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ 'پہلی بار جب مجھے ایک اشتہار میں کام ملا تو کہا گیا کہ مجھے ایک دن کے 5 ہزار ملیں گے، تب میں بہت خوش ہوا کہ مجھے 8 گھنٹے کام کرنے کے 5 ہزار روپے ملتے ہیں۔
راجکمار راؤ کا کہنا ہے کہ اپنے کیرئیر کے آغاز میں جب وہ کام کی تلاش میں تھے تو انہوں نے کئی طرح کے تبصرے سنے تھے۔ "بہت سے لوگوں نے بہت سی چیزوں پر تبصرہ کیا۔ کسی نے کہا کہ تمہاری جسمانی شکل ایسی نہیں ہے کہ تم ہیرو بن جاؤ، میں سمجھتا تھا کہ مجھے ہیرو کا ٹیگ نہیں چاہیے، میں اداکار بننا چاہتا ہوں۔ لیکن یہ سب سفر کا حصہ ہے، میرے دل میں کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
راجکمار راؤ کا کہنا ہے کہ بعد میں کچھ ایسے میکرز بھی ساتھ کام کرنے آئے جنہوں نے پہلے اس طرح کے تبصرے کئے تھے لیکن راجکمار اسے سفر کا حصہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی افسوس نہیں ہے۔
راجکمار راؤ نے ہمیشہ فیصلہ کیا تھا کہ کام کرتے رہنا ضروری ہے، اس لیے شروع میں انہوں نے چھوٹے چھوٹے کردار بھی کیے تھے۔ وہ بریلی کی برفی اور سٹری کو ایسی فلمیں کہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
اپنے فلمی کیرئیر کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’میں جانتا تھا کہ ایل ایس ڈی ایسی فلم ہے جو 100 کروڑ نہیں کمائے گی، لیکن مجھے معلوم تھا کہ اگر یہ دیباکر بنرجی کی فلم ہے تو ہدایت کار دیکھیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ انوراگ کشیپ نے مجھے گینگز آف واسے پور میں لیا تو مجھے شناخت ملی۔ بریلی کی برفی کے بعد میں نے دیکھا کہ میری طرف سے تاثر بدل گیا ہے۔
راج کمار راؤ کے والدین اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے ہر روز افسوس ہوتا ہے کہ ماں اس کے ساتھ نہیں ہے۔ ’’یہ پچھتاوا ہر روز رہتا ہے، دور نہیں ہوتا۔ مجھے خوشی ہے کہ جب مجھے نیشنل ایوارڈ مل رہا تھا تو وہ تالیاں بجا رہی تھیں۔ لیکن افسوس، کاش وہ اب زندہ ہوتیں تو میں ان کو ممبئی لے آتا۔ لیکن میں مانتا ہوں کہ وہ اب بھی مجھے دیکھ رہی ہے۔