اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے پاک فوج کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا

ادارے ریاست کے دست و بازو ہوتے ہیں اس لئے ان کی اصلاح کے بغیر ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ فوج کو اپنی بنیادی ذمہ داری کی طرف لوٹ جانا چاہیے تاکہ پوری قوم ایک مرتبہ پھر 'پاک فوج کو سلام' کے نعرے لگائے۔

اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے پاک فوج کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا

فوج اور عدلیہ کا خود احتسابی کا عمل خوش آئند ہے مگر ماضی کے اثرات کے مکمل خاتمے کے لئے اپنے آپ کو مکمل طور پر ملکی سیاسی و انتظامی معاملات سے لا تعلق ہو کر اپنے کردار کو آئینی حدود تک رکھنے کو یقینی بنانا ہو گا۔ اسی طرح بیوروکریسی کو بھی اپنے کردار سے اپنے آپ کو سول بالادستی کے منصب کے اہل ثابت کرنا ہو گا جو عوامی خدمت کے جذبہ سے سرشار عمل سے ہی ممکن ہے۔

اسی طرح پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لئے وہاں کے ماحول کو منظم کرنے کی ضرورت ہے جس میں قومی نوعیت کے فیصلوں کے اندر سیاسی جماعتوں کی یکجہتی کا تاثر ملنا چاہیے تاکہ دوسرے اداروں کے با اختیار مفادات پرستوں کو ان کے اندر دراڑیں ڈال کر انہیں کمزور کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ اقتدار اور اختلاف کے دونوں اطراف کے بیانیوں کے پیچھے جماعتوں کی اندرونی مفاہمت اور باہمی مؤقف کی طاقت کی تائید ہونی چاہیے جس سے قومی ترقی و فلاح کی حکمت و دانش جھلک رہی ہو جس کی تائید میں عوام کی مکمل حمایت ہو۔ ایسے ماحول کی ضمانت مہیا کرنا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے جو ان کی سنجیدہ و پختہ سیاست کا ایک امتحان بھی ہے جس کی کامیابی کے بغیر دوسرے اداروں کی مداخلت اور کام نہ کرنے کا بیانیہ مضحکہ خیز بات ہو گی۔

موجودہ صورت حال کی زیادہ تر ذمہ دار سیاسی جماعتوں کی آپس کی نا اتفاقی اور دوسرے اداروں کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے کی سوچ اور عمل ہے جس کے تحت وہاں مفادات بانٹ کر انہیں سیاست زدہ کر دیا جاتا ہے اور میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں جو بعد میں سیاسی الحاق کی بنیاد پر ترقی و خوشحالی کی راہ کی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

اب فوج اپنے آپ کو سیاسی معاملات سے علیحدہ رکھنے کی دعویدار ہے اور بظاہر کسی کے پاس مداخلت کا کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہیں مگر اس کے باوجود بھی ماضی کے واقعات پر استدلال کی بنیاد پر بنائے گئے بیانیے سے جان چھڑانا ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ اس کی کئی وجوہات میں سے بڑی وجہ پچھلے 12 سال کی ریاست کے اداروں کی مشترکہ کوششوں سے ہموار کردہ رائے عامہ ہے جو اب ایک سیاسی ضد کی صورت اختیار کر چکی ہے جس کی بنیاد سیاسی شعور، اعلیٰ اخلاقیات اور قومی سلامتی نہیں بلکہ غلط یقین ہے جو تباہ کن صورت حال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس ضد کا شکار طبقہ ہر ادارے کے اندر ہر سطح پر اس کا مظاہرہ کرتے ہوئے نا صرف ملکی سیاسی و انتظامی اور معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے بلکہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے نام پر مینڈیٹ کی بنیاد بن کر جمہوری سیاست کی ناکامی کا تاثر پیش کر رہا ہے۔

اس سارے عمل کے پیچھے کارفرما اصل سبب ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے والی ہماری قومی سطح کی سوچ ہے جس کی حامل شخصیات جس بھی ادارے کے انتظامی عہدوں تک پہنچی ہیں وہاں کہیں انصاف کے عمل کو نظریہ ضرورت کے آگے بے بس تو کبھی ریاست کی عسکری طاقت کو اپنی آئینی حیثیت سے پاؤں پھیلاتے ہوئے منظرنامہ پیش کرتا ہوا ماحول دکھائی دیتا ہے۔ جس وجہ سے جب جب بھی ایسی سوچ اداروں کے انتظامی اختیارات پر حاوی ہوئی تو چند قدم آگے بڑھا ہوا ملک کئی قدم پیچھے کی طرف پھسلتا چلا گیا۔

فوج یا دوسرے اداروں کے اندر ان اعلیٰ سطح پر لیے گئے فیصلوں کے عمل کا ذمہ دار نا تو پورے ادارے کو ٹھہرایا جا سکتا ہے اور نا ہی اس سے ادارے کی حب الوطنی یا پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر سوال کھڑا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر فوج کے ادارے میں حب الوطنی کی کمی ہوتی تو آج کم وسائل کے ہوتے ہوئے پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت کے طور پر ناقابل تسخیر ریاست کا درجہ حاصل ہوتا اور نا آئی ایس آئی دنیا کی اول درجے کی ایجنسی ہوتی اور نا ہی پاکستانی فوج کو عالمی سطح پر بائینڈنگ فورس کے طور پر یاد کیا جا رہا ہوتا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

فوج یا دوسرے اداروں کے سربراہان کی سیاست میں دخل اندازی کی سوچ پر تو اعتراض کیا جا سکتا ہے مگر اس سوچ کی پاداش میں پورے ادارے کی حب الوطنی پر بولنے والوں کی قوم اور فوج کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کو کوئی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔

ایسے کرداروں اور ماحول کی وجہ ہی آج تمام تر ذمہ داریوں کے باوجود ماضی کے استدلال کی بنیاد پر بنائے گئے بیانیے کا سبب بنی ہوئی ہے۔ جس کے لئے اس کی بنیادوں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

آئین اس بارے بہت ہی واضح ہے اس لئے اس بارے قانونی اصلاحات کی بجائے ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے جس کے لئے اداروں میں بھرتی کے عمل سے لے کر محکمانہ تربیت اور ترقی کی بنیاد کو قومی مفادات کے ذاتی مفادات پر ترجیح والی سوچ پر قائم کرنا ہو گا۔ ایسی ہی ادارہ جاتی اصلاحات کا فوج کو بھی اپنی بھرتی سے لے کر ترقی تک کے عمل کا حصہ بنانا ہو گا جس میں ذاتی مفادات اور آمریت کی سوچ پر قدغن لگانا ہو گی۔

ادارے ریاست کے دست و بازو ہوتے ہیں اس لئے ان کی اصلاح کے بغیر ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی ادارے کے اندر قومی مفادات کی سوچ کے حاوی ہوئے بغیر آئین کی بالادستی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس کی اصل وجہ غلط سوچ کی بنیاد پر ریاست کے وسائل، اختیارات اور طاقت کا غلط استعمال ہے جس سے قوم کی صلاحیتیں ضائع ہو کر اداروں اور ملکی ساکھ کی تباہی کا سبب بن رہی ہیں۔

اداروں کے اندر ایسی سوچ والے ماحول کو یقینی بنانے کے لئے یہ احساس اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ ریاست کے وسائل، اختیارات اور طاقت کا استعمال اپنی آئینی ذمہ داریوں کے لئے ہوتا ہے نا کہ ذاتی مفادات کی خاطر۔ جب قومی مفادات کی ترجیحات کے عمل کے نتائج سے ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں تو یہ چھوٹی چھوٹی ذاتی مفادات کی خواہشوں اور انگڑائی کی نوبت ہی نہیں آتی وگرنہ جب آنکھوں پر ذاتی مفادات کی پٹیاں بندھی ہوئی ہوں تو اپنے ہاتھوں سے اپنی معاشی پالیسیاں دوسروں کے سپرد کر کے اپنی تجوریوں تک ان کو رسائی دے کر انہیں غیر محفوظ بنا کر اپنے مال کے تحفظ کے لئے غیروں کی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔

یہی آج ہمارا حال ہے۔ ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے خوراک کے لئے دوسروں کے محتاج اور ملک دشمن سرگرمیوں اور تجارتی پالیسیوں کی بدولت روپے کے بدلے ڈالر اور یورو کو سینے سے لگایا ہوا ہے۔ اور اب اپنی ہی نااہلیوں کی بدولت اس قدر مجبور ہو چکے ہیں کہ سودی مالیاتی نظام کے گہرے گڑھے میں گرنے کی نجات کے علاوہ کوئی سمت دکھائی ہی نہیں دیتی۔

ہماری جمہوریت کے مینڈیٹ کی بنیاد سیاسی تفرقہ بازی پر وجود پانے والی اس ضد کے خاتمے کے لئے حکومتی سطح پر عوام میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کے لئے سکولوں کے نصاب سے لے کر نشریاتی اداروں کے ذریعے سے آئین و قانون کی آگہی پیدا کرتے ہوئے عوام کے اندر حب الوطنی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کی وفاداریوں کو شخصیت پسندی سے موڑ کر وطن کے مفادات سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔

ہماری قوم اور اداروں کی صلاحیتوں کا کوئی ثانی نہیں، ضرورت ان کے صحیح استعمال کو یقینی بنانے کی ہے۔ سیاسی مداخلت جیسی اضافی ذمہ داریوں کے باوجود بھی اگر ہمارے عسکری اداروں کی پیشہ ورانہ کارکردگی اس قدر مثالی ہے تو اگر تمام تر صلاحیتوں کا مرکز پیشہ ورانہ کارکردگی ہوتا تو نتائج مزید کتنے اچھے ہوتے۔

اب جس طرح سے پچھلی ایک دہائی پر محیط کوششوں کا مرکز آئین کی روح کے خلاف ضرورت اور مفادات کے تحت فوجی ڈنڈے کا استعمال ہوتا رہا ہے اب اسی طرز پر اتنا ہی عرصہ ڈنڈے کا استعمال آئین سے ہم آہنگ کرنے اور اس کی پاسداری کی مشق کی حمایت پر صرف ہونا چاہیے اور اپنے توانا کندھوں کا استعمال آئین سے ہم آہنگ پارلیمان کی بالادستی کے لئے استعمال ہونا چاہیے۔ اپنے کندھوں پر ماورائے آئین انتظامی اور سیاسی ذمہ داریوں کی بجائے آئین و پارلیمان کی سونپی ہوئی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے آئین پر من و عن عمل کو یقینی بنائے جانے پر قومی وسائل کا استعمال ہونا چاہیے تاکہ ماضی کی طرح پھر سے نا صرف قوم کے دل سے ' پاک فوج کو سلام' کے نعرے گونجیں بلکہ دوسرے اداروں کو بھی اپنی ذمہ داریاں اٹھانے کی ترغیب اور احساس پیدا ہو اور اس سے اداروں کے اندر برتری کے بارے طاقت اور وسائل تک دسترس کی بجائے اصول، آئین، قانون اور قاعدے کا تاثر پروان چڑھے جس سے مثبت سوچ و عمل کو پنپنے کا موقع ملے گا۔

ویسے بھی قومی سطح پر سوچ و عمل کو بدلنے کا ماحول اب کسی بڑے سانحہ سے بچنے کے لئے قومی مجبوری، حمیت اور غیرت کا تقاضا بن چکا ہے جس کا احساس ہمیں اب ہو جانا چاہیے، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔