فاروق قیصر کی یاد میں جنہوں نے دکھایا کہ اصل پُتلیاں کہاں ہیں

آج پاکستانی میڈیا کے کئی چینلز ہیں جو آزاد کہلاتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ فاروق صاحب نے سٹیٹ کنٹرولڈ پی ٹی وی پر کٹھ پتلیوں کے ذریعے وہ کچھ دکھا اور سنا دیا جو آج کے بے باک 'صحافی' کے بھی بس کی بات نہیں۔ فاروق صاحب آپ کا شکریہ، آپ کے تخلیقی ایڈونچر سے پتہ چل گیا کہ اصل پتلیاں کہاں ہیں۔

فاروق قیصر کی یاد میں جنہوں نے دکھایا کہ اصل پُتلیاں کہاں ہیں

یکم نومبر کو فاروق قیصر کی سالگرہ تھی۔ میری جنریشن کے لیے وہ ایک اہم یاد ہیں۔

1976 میں پی ٹی وی نے بچوں کے لیے پروگرام کلیاں شروع کیا۔ اسلام آباد شہر کے سرکاری بابو اور بیگمات کو فکر لاحق ہوئی کہ بچوں کو اردو اور وہ بھی خراب یعنی عوامی انداز کی عادت ہو جائے گی۔ باتمیز اردو میڈیم کے مقبول ڈائیلاگ کے ساتھ ہم انکل سرگم، ہیگا، نونی پا، ماسی مصیبتے، رولا اور کی پپپیٹس کے ساتھ بڑے بھی ہوئے اور ان کرداروں کے گرویدہ ہو گئے۔ اس وقت بشریٰ بشیر ( بشریٰ انصاری) گانے بھی انکل سرگم کے ساتھ گایا کرتی تھیں۔ احمد بشیر کی صاحبزادی اور پروین عاطف کی بھتیجی کو ٹی وی پر دیکھ کر میرے اردو سپیکنگ ادیب والدین باوجود کلیاں کی بدولت ہمارے تلفظ کے خراب ہونے کا اندیشہ لیے بھی خوش ہوتے تھے۔

1977 میں ضیاء الحق نے ہم سب کو اجتمائی طور پر دوبارہ مسلمان کیا۔ تب ضیاء کی آمریت اور پولیٹیکل اسلام نے ذہنی نشوونما کو روک دیا تھا، ہم بچوں کی نہیں بلکہ ان بڑوں کی جو اس نظام کا ساتھ دے رہے تھے اور اعلیٰ عہدے اور ضیاء کی مجلس شوریٰ کے/ کی رکن تک بن بیٹھے/بیٹھیں تھیں (یہ وقت کی مسخرگی ہی تو ہے کہ ان میں سے یا ان کی بلڈ لائن سے وابستہ کئی مرد و خواتین ہماری آج کی سیاست، سول سوسائٹی حتیٰ کہ ادبی میراث تک کا حصہ ہیں اور ہر طرح سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں)۔

اس دور میں ہنسنا اور خوش رہنا ایک نہایت ہی عظیم نعمت تھی۔ ان حساس سوچنے والے فکری ایمانداری والے لوگوں کے لیے جیسے کہ میرے والد صاحب جو ضیاء کے نماز کے وقفے کی آڑ میں غائب ہونے والے کولیگز اور اس پر کچھ کہنے کی جرات کرنے کی پاداش میں پیدا ہونے والے مسائل سے بھی متاثر اور متاثرہ رہتے تھے۔

2023 کا اسلام آباد میرے سامنے ہے اور اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول کا ای میل انوائٹ بھی۔ سوچتی ہوں کہ اس موقع پر ایلیٹ ادیبوں اور فنکاروں اور ایک کمرشل ایونٹ میں جس کی افادیت سے انکار نہیں ہے، یہ اپیل کر دوں کہ فاروق قیصر مرحوم کے لئے بھی کوئی سیشن ہوتا، کوئی در، دریچہ یا سڑک ان کے نام سے بھی وابستہ ہو۔ نئی نسل کو پتہ چلے کہ ٹیکنالوجی کی آسانیوں سے بہت پہلے پُتلی جیسے مشکل آرٹ کو سیکھنا اور اس سے طنز و مزاح کا ایک نالج کوریڈور بنانا، وہ بھی سرکار کی نوکری میں اور کئی فنکاروں کو روزگار دینا اور آج کے کئی سٹارز کو تراشنا کتنی کٹھن بات ہے۔

آج پاکستانی میڈیا کے کئی چینلز ہیں جو آزاد کہلاتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ فاروق صاحب نے ایک سٹیٹ کنٹرولڈ پی ٹی وی پر کٹھ پتلیوں کے ذریعے وہ کچھ دکھا دیا اور سنا دیا جو آج کے بے باک 'صحافی' کے بھی بس کی بات نہیں۔

فاروق صاحب آپ کا شکریہ، آپ کے تخلیقی ایڈونچر سے پتہ چل گیا کہ اصل پتلیاں کہاں ہیں۔

ریسٹ ان پاور!

ڈاکٹر رخشندہ پروین سماجی کارکن اور ادیبہ ہیں۔