’’میں تو کہوں گا کہ زیادہ تر فلم، سینما برے ہوتے ہیں‘‘

’’میں تو کہوں گا کہ زیادہ تر فلم، سینما برے ہوتے ہیں‘‘
تحریک آزادی ہند کے رہنما موہن داس کرم چند گاندھی کا 150واں یوم پیدائش آج بدھ کو منایا جا رہا ہے۔ مہاتما گاندھی 2 اکتوبر 1869 کو پیدا ہوئے تھے۔ بھارتی تحریک آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی فلموں کے سخت خلاف تھے لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں دو فلمیں دیکھی تھیں۔

ایک بھارتی میگزین کے مطابق 1927 میں ’انڈین سنیمیٹروفک سوسائٹی‘ کی میٹنگ میں دادا صاحب پھالکے اور لالہ لاجپت رائے کے علاوہ گاندھی کو بھی فلموں کے بارے میں ایک سوالنامہ بھیجا گیا تھا۔ جس کے جواب میں گاندھی نے کہا کہ فلم سماج کا نقصان کرتا ہے اور انہوں نے اس وقت تک کوئی فلم دیکھی ہی نہیں۔ بعد میں ان سے ہندوستانی سینما کی سلور جوبلی پر فلموں کے بارے میں پیغام مانگا گیا، تو ان کے سیکریٹری نے پیغام دینے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ، گاندھی جی فلمیں پسند نہیں کرتے تھے۔

فلموں کے حوالے سے مہاتما گاندھی نے ’ہریجن‘ میں لکھا ہے کہ میں تو کہوں گا کہ زیادہ تر فلم، سینما برے ہوتے ہیں۔

مہاتما گاندھی پر پہلی دستاویزی فلم 1937 میں بنائی گئی تھی۔ اسے مدراس کے اے کے چٹيار نے بنایا تھا لیکن اس پر حکومت نے پابندی عائد کر دی تھی۔ اسی طرح 1921 میں ایک فلم ’بھکت ودُر‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی جس میں گاندھی جی سے ملتا جلتا کردار شامل تھا۔ ممبئی میں فلم کو دیکھنے کے لئے اتنا رش لگ گیا تھا کہ پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ انگریز حکومت نے اس فلم پر بھی پابندی لگا دی تھی، جو ملک کی پہلی سنسرڈ فلم تھی۔

فلم صحافی اجے برهماتمج کے مضمون کے مطابق سینسر بورڈ نے اپنے حکم میں لکھا تھا کہ ہمیں پتہ ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ یہ ودُر نہیں ہے۔ یہ گاندھی ہے اور ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔

میگزین میں شامل مضمون میں مزید بتایا گیا ہے کہ مہاتما گاندھی کے سینما کے بارے میں منفی نقطہ نظر کے خلاف مشہور فلم ڈائریکٹر، صحافی خواجہ احمد عباس نے 1939 میں مہاتما گاندھی کے نام ایک سخت خط بھی لکھا تھا۔

شاید یہ اسی خط کا اثر تھا کہ گاندھی جی نے اپنی زندگی میں پہلی اور صرف ایک ہندی فلم ’رام راجیہ‘ 1943 میں دیکھی اور اسی سال انہوں نے ہالی ووڈ کی فلم ’مشن ٹو ماسکو‘ بھی دیکھی۔