Get Alerts

امریکا کو جلد یا بدیر طالبان کی حکومت تسلیم کرنی پڑے گی اور کوئی چارہ نہیں: عمران خان

امریکا کو جلد یا بدیر طالبان کی حکومت تسلیم کرنی پڑے گی اور کوئی چارہ نہیں: عمران خان
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ امریکا کو جلد یا بدیر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنی پڑے گا اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے سقوطِ کابل کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر طالبان کو فوری طور پر عالمی امداد فراہم نہیں کی گئی تو خطرہ ہے کہ وہاں تشکیل پانے والی عبوری حکومت گر جائے گی جس کے نتیجے میں افرا تفری پیدا ہوگی اور انسانی بحران جنم لے گا جبکہ امریکا کو طالبان کی حکومت جلد یا بدیر تسلیم کرنی ہوگی۔

وزیر اعظم کی جانب سے ترک میڈیا 'ٹی آر ٹی ورلڈ' کو دیئے گئے ایک انٹرویو کو نجی چینل جیو نیوز نے نشر کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ تاہم اب افغانستان کا مسئلہ لٹکنا دراصل انسانی بحران کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ افغان حکومت اپنے بجٹ کے لیے 75 فیصد تک بیرونی امدا پر انحصار کرتی تھی۔ جیسے ہی بیرونی امداد کا سلسلہ بند ہوتا ہے تو لوگوں کو خدشہ ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد بیرونی امداد ختم ہوجائے گی۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ طویل مدت کے لیے تو شاید طالبان اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں گے لیکن اگر انہیں فوری طور پر امداد فراہم نہیں کی گئی تو خطرہ ہے کہ وہاں تشکیل پانے والی عبوری حکومت گر جائے گی جس کے نتیجے میں افرا تفری پیدا ہوگی اور انسانی بحران جنم لے گا۔

طالبان پر مشتمل عبوری حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران نے کہا کہ ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہماری افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک سے مشاورت جاری ہے کہ ان کی عبوری حکومت کو کب تسلیم کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر پاکستان نے تنہا طالبان کو قبول کیا تو اس کا زیادہ فرق نہیں پڑے گا اس لیے ترجیحاً یہ ہونا چاہیے کہ امریکا، یورپ، چین اور روس بھی ان کی حکومت کو تسلیم کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم سب مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیتے ہیں تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

دوران انٹرویو وزیر اعظم عمران خان نے سوال اٹھایا کہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ امریکا طالبان کی حکومت کو کب تسلیم کرے گا؟ انہوں نے کہا کہ جلد یا بدیر امریکا کو طالبان کی حکومت تسلیم کرنی ہوگی، ان کے سینیٹ میں جو سماعت ہوئی، ان کے میڈیا میں دیکھیں، امریکا صدمے اور تذبذب کا شکار ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ امریکا 20 سال کے بعد طالبان کی حکومت کے آنے سے شدید حیرت کا شکار ہے اور اب وہ قربانی کا بکرا ڈھونڈ رہا ہے جبکہ امریکی صدر جوبائیڈن کو تنقید کا نشانہ بنانا افسوس کی بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ (جوبائیڈن) کیا کرسکتے تھے، انخلا کی تاریخ جب بھی دی گئی ہوتی ایسا ہی ہوتا جیسا آپ نے دیکھا، وہ جوبائیڈن سمیت سبھی کے لیے حیران کن تھا۔ امریکا اب قربانی کا بکرا تلاش کررہا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان ان میں سے ایک ہے، واشنگٹن منطقی ذہنیت سے نہیں سوچ رہے کہ اگے کیسے بڑھنا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اگر امریکا افغانستان کے ذخائر کو غیر منجمد نہیں کرتا اور افغان حکومت گر جاتی ہے تو نتائج انتہائی سنگین ہوں گے، اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں آئندہ برس تک 90 فیصد غربت کی لکیر سے نیچھے ہوجائیں گے اس لیے امریکا کو مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

بعض امریکی سینیٹرز کی جانب سے پاکستان پر پابندیاں لگانے سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ جو کوئی افغانستان بشمول خطے کی تاریخ سے واقف ہے، ہم سب جانتے تھے کہ ایسا ہی ہوگا ہمیں علم تھا کہ آخر کار مسئلہ جنگ سے حل نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں لوگ غیر ملکی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے، خاص طور پر اگر وہ مسلمان نہ ہوتو ان کی قبولیت کا کوئی امکان نہیں ہوتا، افغانستان میں نصف سے زیادہ پشتون ہیں اور ان کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اگر ان کا کوئی عزیز قتل ہوجائے تو وہ اس کا بدلہ لیتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جب ہم نے امریکا کا اتحادی ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ طالبان پشتون تھے تو طالبان کے ساتھ ہمدردیاں ان کے مذہبی نظریات کی وجہ سے نہیں تھیں بلکہ ان کی پشتون قومیت کی وجہ سے تھیں، سرحد کی ہماری جانب پہلی مرتبہ ہم نے پاکستانی طالبان دیکھے، انہوںں نے ہمیں امریکیوں کا ساتھی تصور کیا اور ہم پر حملے شروع کردیے، امریکا نے جتنے حملے کیے طالبان کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 2008 میں امریکی تھنک ٹینک سمیت متعدد سینیٹرز سے ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ امریکی عوام کو افغانستان کی صورتحال کے بارے میں مکمل طور پر بے خبر رکھا گیا، وہ سمجھتے کہ افغان میں جمہوری حکومت قائم ہوگی، افغان عورتوں کو آزادی مل گئی اور سقوطِ کابل کے بعد پورا امریکا پریشان ہوگیا۔

عمران خان نے کہا کہ 2010 میں آرمی چیف نے امریکا دورہ کیا اور انہیں آگاہ کیا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل جنگ نہیں ہے، اور جیسے ہی وہ افغانستان سے انخلا کریں گے افغان حکومت اور آرمی گر جائے گی۔

عمران خان کو ’ طالبان خان ‘ کہنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ یہ جارج بش کی حکومت میں ان کے سامراجی رویہ کا عکاس ہے، یہ ان کا بدترین تکبر تھا، جب انہوں نے ہم سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا مخالف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں جنگی حل کا مخالف ہوں، میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ دنیا کے مسائل کا حل جنگی ذرائع ہیں، میں عراق جنگ کا مخالف تھا، امریکا نے ہمیں افغانستان جنگ میں قربانی کا بکرا بنایا اور ہماری خدمات کو تسلیم کرنے کے بجائے مسلسل تنقید کی، ہمارے لیے سب سے تکلیف دہ امر تھا۔

وزیر اعظم نے واضح کیا کہ میرا خیال ہے کہ جب امریکا کھلے ذہن کے ساتھ سوچے گا تو اسے اندازہ ہوگا کہ پاکستان اس سب کے لیے کیسے ذمہ دار ہوسکتا ہے، یہ کیسے ہوا کہ بہترین اسلح سے لیس 3 لاکھ افغان فوج نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے، یہ پاکستان کی وجہ سے نہیں تھا۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ صورتحال کا تجزیہ کریں تو نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے لیکن پاکستان اس کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا، طالبان کی تحریک دیہی علاقوں میں شہرت پائی گئی یہی وجہ ہے کہ وہ کامیاب ہوگئے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب ہم شمولیتی حکومت کی بات کرتے ہیں تو پہلی بات یہ کہ افغانستان کے خیر خواہ کی حیثیت سے ہم چاہیں گے کہ وہ مستحکم ہوں اور ایک شمولیتی حکومت قائم ہو۔

انہوں نے کہا کہ شمولیتی حکومت کے بارے میں طالبان پر مسلط نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ مداخلت ہوگی، اور اگر طالبان کو چند لوگوں کو منتخب کرنے کا مشورہ دیا گیا تو وہ اس کی مخالفت کریں گے، امریکا بشمول پاکستان ان پر اپنی رائے مسلط نہیں کرسکتا۔

امریکا اور پاکستان کے تعلقات سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم ان سے مسلسل رابطے میں ہیں جبکہ ہماری انٹیلی جنس کے سربراہ اپنے امریکی ہم منصبوں سے رابطے میں ہیں۔