توہین مذہب کے نام پر قتل کا سبب ریاستی قانون اور پالیسی کے درمیان تضاد ہے

توہین مذہب کے نام پر قتل کا سبب ریاستی قانون اور پالیسی کے درمیان تضاد ہے
 

محمد نفیس

دستیاب اعداد و شمار جو گزشتہ کالم میں شامل کئے گئے تھے ان سے پتہ چلتا ہے کہ 40 مسلمان توہین رسالت کے الزام پر 1994 سے جون 2020 تک ماورائے عدالت اقدام قتل کا نشانہ بنے ہیں اور ان میں سب سے پہلا واقع نہائت ہی افسوسناک اور ہولناک تھا۔ یہ واقع 1994 میں گوجرانوالہ میں پیش آیا تھا جس کا شکار ایک حافظ قرآن اور جماعت اسلامی کا رکن حافظ سجاد فاروق تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی مشتبہ توہین رسالت میں ملوث فرد کو نہ صرف سنگسار کیا گیا تھا بلکہ مشتعل ہجوم نے اسے نذر آتش بھی کردیا تھا۔  کئی سالوں تک اس کی اہلیہ اس قتل کے الزام میں گرفتار ہونے والے چار ملزمین کے خلاف قانونی کاروائی کی پیروی کرتی رہی لیکن آخرکار جب اس کے اپنے والد انتقال کرگئے تو وہ اس جدوجہد کو جاری نہ رکھ سکی کیونکہ اب ان ملزمان کے خلاف قانونی لڑائی جاری رکھنے کے لئے اسکی مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ جماعت اسلامی نے اگرچہ حافظ سجاد فاروق کی اہلیہ کو مالی اعانت فراہم کی لیکن وہ ان مجرموں کو سزا دلانے میں نہ تو کوئی معاونت فراہم کرسکی اور نہ ہی انہوں نے ان مجرموں کو غازی کا لقب دینے کی ہمت کی۔ نتیجتاً نہ صرف چار گرفتار شدہ مجرمان بلکہ اس گھناونے عمل میں شامل سینکڑوں لوگوں کا مجمع بھی غازی کے عقیدتمندانہ لقب سے محروم رہ گیا۔

لیکن اس واقع سے کوئی سبق نہیں لیا گیا اور توہین رسالت کے قاتل کو غازی کہنے کی روایت مکمل طورپر ملک سے ختم نہ ہوسکی۔ 2011 میں ، پنجاب کے گورنر ، سلمان تاثیر کو ان کے ذاتی سیکیورٹی گارڈ ملک ممتاز قادری نے قتل کردیا اور اس نے اس قتل کا سبب یہ بتایا کہ سابق گورنر توہین رسالت کےمرتکب ہوئے تھے۔ وہ جلد ہی ایک بہت قابل احترام فرد بن گیا اور عدالتی مقدمات کی سماعت کے دوران پولیس اہلکار اور وکلاء کی بڑی تعداد اس پرگلاب کی پتیوں اور بوسوں کی بوچھاڑکرتی رہی۔ اطلاعات کے مطابق لگ بھگ 300 وکلاء نے اس کے مقدمے کی رضاکارانہ طور پرپیروی کرنے کیلئے اپنی پیش کش بھی کی تھی۔ اس کے علاوہ کیس کی سماعت کے دوران اس کے حمائتی وکلاء سینکڑوں کی تعداد میں عدالت کے باہر موجود رہتے تھے تاکہ عدالتی فیصلے پر اثرانداز ہوسکیں۔ یہ واقعات اس بات کی واضح مثال ہیں کہ ملک میں ایسے لوگ بھی ملکی قانون سے اختلاف رائے رکھتے ہیں جوخود ان قوانین کے محافظ اور ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔ ممتاز قادری کیس کی عدالتی کارروائی کے دوران ممتازقادری کے وکلا نے جس قسم کے دلائل پیش کئے ان سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ وہ اپنے اختلاف کو کس طرح جائز قرار دیتے ہیں۔

سماعت کے دوران ، ممتاز قادری کے وکیلوں اور سپریم کورٹ کے ججوں کے مابین دلائل اور جوابی دلائل کاجو تبادلہ ہوا وہ ان حقائق پر روشنی ڈالتا ہے کہ قانونی نظام سے متعلق اہم افراد سلمان تاثیر کے قتل کے واقعے کو کس طرح دیکھتے تھے۔

سپریم کورٹ کی رائے تھی کہ ملک میں کسی بھی فرد کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جبکہ ممتاز قادری کے وکیلوں نے عدالت کوقائل کرنے کی کوشش کی کہ ریاست کی اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکامی دوسروں کو ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے اور ممتاز قادری نے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق وہی کام کیا جو اسے ان حالات میں کرنا چاہئےتھا ۔ جو بھی شخص اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا مرتکب ہوگا اسکے قتل کا وہ خود زمہ دار ہے۔   توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہنا ایک ناقابل برداشت جرم قرار دینے پر سپریم کورٹ نے اختلاف کیا اور جواباً یہ موقف اختیار کیاکہ توہین رسالت کے قانون پر تنقید کرنا توہین مذہب نہیں ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ممتاز قادری کے دفاعی وکیل لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج تھے۔ خواجہ محمد شریف لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس تھے اور میاں نذیر اختر بھی اسی عدالت کے سابق سینئر جج تھے۔ کیا ممتاز قادری کی قسمت کا فیصلہ کچھ مختلف ہوتا اگر یہ دو سابق جج صاحبان ، ممتاز قادری کی اپیل کی سماعت کررہےہوتے؟ غازی ممتاز قادری کی یہ بدقسمتی رہی کہ اس کی اپیل سننے والے جج صاحبان ان سابقہ جج صاحبان سے مختلف تھے جو ممتاز قادری کی پیروی کررہے تھے۔ دھشتگردی کے خلاف قائم کردہ عدالت سے سزائے موت پانے کے پانچ سال بعد 29 فروری 2016 کو ممتازقادری کو اڈیالہ جیل میں پھانسی دیدی گئی۔ غازی علم الدین شہید کی پھانسی کےتقریباً 87 سال بعد ایک اور غازی پھانسی کی سزا کا مستحق قرار پایا تھا اور دونوں کے جرائم کی وجہ ایک ہی تھی لیکن ان کے جرائم کا نشانہ بننے والے افراد مختلف تھے۔  ایک ہندو تھا اور دوسرا مسلمان۔

اس فیصلے کے حامی افراد کیلئے یہ فیصلہ کافی سکون اور راحت کا سبب تھا کیونکہ ان کے خیال میں اس اقدام سے ملکی قانون کی بالادستی قائم ہوئی تھی اور یہ بات طے کردی گئی تھی کہ محض ذاتی جذبات کی بنیاد پر کسی کو جرم کا ارتکاب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے بعد یہ سمجھا گیا کہ توہین رسالت کے الزامات کے تحت لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے اقدامات کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ لیکن یہ تصور بہت جلد ہی غلط ثابت ہوگیا۔

ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد اگلے چار سال (2016 - جون 2020) کے دوران ، توہین مذہب کے الزامات کے تحت 7 افراد کو غیر قانونی طور پر ملک میں قتل کردیا گیا اور ان میں سے ایک واقع اپنی نوعیت اور حئیت میں سب سے زیادہ گھناؤنا اور بھیانک تھا۔ مشال خان ، عبد الولی خان یونیورسٹی ، مردان کا 23 سالہ طالب علم ، 14 اپریل 2017 کو ، مبینہ طور پر "توہین آمیز مواد آن لائن شائع کرنے" کے الزام میں یونیورسٹی کے طلباء اور عملے کے ممبروں کے ایک بڑے ہجوم کے ہاتھوں ہلاک کردیا گیا تھا جبکہ اسکا ایک ساتھی شدید زخمی ہوا تھا۔ اگرچہ کہ ایک بہت بڑے ہجوم نے دو نہتے افراد کے خلاف یہ بہادرانہ قدم اٹھایا تھا اور انکی اس فاتحانہ کاروائی کی ویڈیوز بھی منظرعام پر آگئی تھیں لیکن واقع کے بعد ان میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ کرنے کا حوصلہ نہیں کیا کہ وہ مشال خان کے قتل کرنے کے بہادرانہ فعل کے  مرتکب ہوے ہیں۔ نتیجتاً ان میں سے کسی کو بھی غازی کا لقب نہیں دیا گیا اور ان میں سے چند افراد کو عمر قید کی سزا بھی سنائی گئی۔

نہ تو غازی ممتاز قادری کو پھانسی پر چڑھانے سے اور نہ ہی مشال خان کے قاتلوں کو عمر قید کی سزا دینے سے توہین مزہب کے مشتبہ افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے رجحان میں کوئی کمی آسکی۔  مشال خان کیس کے بعد توہین رسالت کے الزامات کے تحت دو اور مسلمانوں کو غیر عدالتی طور پر قتل کیا گیا اور مجرموں نے بڑے فخر کے ساتھ اس جرم کا اعتراف بھی کیا تھا لیکن ملک کے مذہبی حلقوں کو ان افراد کا یہ فعل اس قدر متاثر نہ کرسکا کہ وہ انہیں غازی کا لقب عطا کرتے اور ان کیلئے عدالتی کاروائیوں میں اپنی خدمات بھی پیش کرتے۔ ان واقعات کی مختصر تفصیلات درج زیل ہیں:

فہیم اشرف - چارسدہ کے ایک نجی کالج میں بارہویں جماعت کا طالب علم تھا جس نے اپنے کالج کے پرنسپل سریر احمد کو گولی مارکرتوہین مزہب کے الزام میں22 جنوری 2018 کو قتل کردیا تھا۔ کالج کا پرنسپل نہ صرف حافظ قرآن تھا بلکہ جمعیت علمائے اسلام فضل (جے یو آئی-ف) سے وابستہ بھی تھا۔

شعبہ انگریزی میں گریجوئٹ سطح کے طالب علم خطیب حسین نے پروفیسر خالد حمید کو ایک ایسے پروگرام کے اہتمام کے لئے 21 مارچ 2019 کو قتل کردیا تھا جواس کے خیال میں غیر اسلامی تھا کیونکہ اس میں لڑکے اور لڑکیاں اکھٹے شریک ہونے تھے۔

ان دونوجوانوں کا توہین مزہب کے الزام پر اقدام قتل کچھ زیادہ شہرت نہ پاسکا اورانہیں جلد ہی غازی کا لقب دئیے بغیرہی بھلادیا گیا۔ لیکن غازی کی روائت کا یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم نہ ہوسکا اورسلمان تاثیر کے قتل کے تقریباً 9 سال بعد ایک اور نوجوان اس لقب کے جائز حقدار کے طورپر ابھر کر سامنے آگیا۔ اس کا نام تھا محمد خالد احمد خان جس نے ایک عدالتی سماعت کے دوران پشاور میں ایک احمدی، طاہر احمد نسیم کو قتل کیا تھا۔ اس قتل کے فوراً بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عادل حلیم شیخ نے اپنے فیس بک پر قاتل کی تصویر لگا کر توہین مذہب کے الزامات پر اس قتل کی حمایت کی۔ لیکن سوشل میڈیا کی تنقید کے بعد انہوں نے اس تصویرکو اپنے فیس بک سے ہٹا دیا اوراس غلطی کی توجیح یہ پیش کی کہ وہ اپنے فیس بک اکاؤنٹس کو ذاتی طور پر نہیں چلاتے، اورقاتل کی تصویر ان کی علم میں لائے بغیراپ لوڈ کردی گئی تھی جس کا مطلب یہ ہیکہ جس شخص نے یہ کام کیا تھا وہ ان کا اپنا خاص آدمی تھا اور وہ اس قسم کے قاتلانہ اقدام کی حمائت کرتا تھا۔ حلیم عادل شیخ خوش قسمت تھے کہ اس شخص نے انکی معلومات کے بغیرکوئی توہین آمیز پوسٹ ان کے فیس بک پر نہیں لگادی ورنہ انکے لئے وضاحت دینا اتنا آسان نہ ہوتا۔  بہرحال، وہ اکیلے ہی اس کارخیر میں شامل نہیں ہوئے تھے بہت سے اور لوگوں نے بھی ملک کے بہت سے حصوں میں محمد خالد احمد خان کے فوٹو والے پوسٹر آویزاں کرنا شروع کردیئے تھے جن میں اسے ایک غازی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ وکلاء برادری کی ایک اچھی خاصی تعداد نے اور پولیس اہلکاروں نے بھی اس غازی پر اپنے عقیدت مندانہ بوسے اس وقت نچھاور کئے تھے جب وہ عدالت میں پیشی کیلئے لایا گیا تھا۔ اس طرح ایک بار پھر توہین رسالت پر ماورائے عدالت قتل کے زمہ دارشخص کوغازی کے لقب سے یاد کرنے کا رویہ بہت سے لوگوں کیلئے دلچسپی کا موضوع بن گیا۔

ان واقعات کے پیش نظریہ سوال ایک مرتبہ پھر اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ کیا اس قسم کا اقدام کرنے والا شخص واقعی غازی کے اعزاز کا حقدارہوسکتا ہے جبکہ وہ نہ تو مقتول سے حالت جنگ میں ہوتا ہے، نہ ہی مقتول کی جانب سے اسے جنگ کیلئے للکارا گیا ہوتا ہے اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ مقتول غیرمسلح تھا اورقاتل کے پاس ہتیھارموجود تھا؟ صرف ایک جواز جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس قسم کی جرات کا مظاہرہ کرنے والے دراصل اس ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہیں جو ہتیھار بند ہے اوریہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے اس اقدم کے نتیجے میں وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے وہ ریاست کے خلاف نبرد آزما ہوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے انکے حامی انہیں بہادر اور غازی سمجھتے ہیں۔ لیکن اس جوازکے تحت ایسا قدم  اٹھانے کے نتیجے میں وہ ریاست سے غداری کے جرم کا شکار ہوجاتے ہیں اور غدار کو بھی غازی کے لقب سے نہیں نوازا جاسکتا۔ تو پھراس ریاستی قانون اور مذہبی تفہیم کے درمیان پائے جانے والے اس تنازعہ کو کیسے حل کیا جائے؟

یہ تنازعہ بنیادی طور پر اس دورخے پن کا نتیجہ ہے جو ریاستی قانون اور ریاستی پالیسی میں موجود ہے۔ ریاستی قانون کسی بھی فرد کوکسی بھی حالت میں قانون کواپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا لیکن جب ریاستی مذہب کے تقدس کی بات ہو تو ریاستی پالیسی اس طرح کے طرز عمل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جو اس ریاستی قانون کے عین خلاف جاتا ہے۔ ریاستی پالیسی کے مطابق غازی علم الدین شہید کے بہادرانہ واقعہ کو درسی کتب میں شامل کیا گیا ہے لیکن ریاستی قانون ان افراد کے خلاف ہے جو غازی علم الدین شہید کے حقیقی پیروکار بننے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ ریاست کو اس معاملے پر ایک واضح لکیر کھینچنا ہوگی ورنہ معصوم لوگ قانون کواسی طرح اپنے ہاتھ میں لیتے رہیں گے اور وکیل ، جج ، پولیس اہلکار اور مذہبی راہنما ان کی حمایت میں لگے رہیں گے۔ تصدیق کئے بغیر کسی بھی شخص کو محض الزام تراشی پریا اپنے مخصوص نقطہ نظرکی بنیاد پرقتل کرنے کے واقعات اسی طرح جنم لیتے رہیں گے اور پھر پھانسی کے تختے پربھی چڑھائے جاتے رہیں گے۔ موت ہی ہمیشہ اس طرح کے اعمال کا واحد حل ہوگی اور وہ بھی کسی ایسے مذہب کے نام پر جسے امن کا مزہب کہا جاتا ہے۔

۔