ماہرین قانون نے تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ کو شرمناک اور آئینی نظام پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیراعظم اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے تھے۔
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے آج قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو آئین و قانون کے منافی قرار دے کر اسے مسترد کردیا اور اجلاس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔
ماہر قانون سلمان اکرم راجا نے انگریزی جریدے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے صریحاً آئین کے خلاف اور انتہائی شرمناک رولنگ دی ہے اور آئینی نظام اور عمل کو منجمد کردیا اور آگے بڑھنے سے روک دیا۔
انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد ختم کردی، اب وزیراعظم ایک ایسے وزیراعظم تھے جن کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد نہیں تھی لہٰذا انہوں نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار استعمال کیا۔
ان کا کہناتھا کہ اب معاملہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد عبوری حکومت پر جائے گا اور الیکشن کی تاریخ مقرر ہو جائے گی۔
معروف قانون دان نے کہا کہ یہ معاملہ اگر عدالت میں جاتا بھی ہے کہ اسپیکر کی رولنگ درست تھی یا نہیں تو اس میں کئی ہفتے اور مہینے لگ جائیں گے کیونکہ یہ کوئی آسان معاملہ نہیں ہے، آئین کا آرٹیکل 69 یہ کہتا ہے کہ اسپیکر کی رولنگ اور ایوان میں ہوئے کسی عمل کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا، اگر عدالت کوئی استثنیٰ دیتی ہے تو اس میں کافی وقت لگ جائے گا۔
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے انگریزی اخبار ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل غیرآئینی اقدام ہے اور حکومت اس کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکتی، اتنی بڑی خلاف ورزی کو معاف نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ کو بھی اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ آئین کی خلاف ورزی پر کسی کو معاف کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا ہے بہت غلط ہوا ہے، پاکستان کو اگر ہم اسی طرح سے چلائیں گے تو کیا ہم انارکی کو تقویت دینا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں حکومت کی جانب سے بیرونی سازش کی نشاندہی کر کے آرٹیکل 5 کا حوالہ دینا درست نہیں، وہ بالکل مختلف بات ہے، اسپیکر صاحب نے یہ ازخود کیسے سوچ لیا کہ یہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن بیرونی قوتوں کے ساتھ مل کر ملی بھگت ہے اور وہ ملی بھگت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔
عرفان قادر نے مزید کہا کہ اگر اپوزیشن اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جاتی ہے تو اس میں وفاق کا موقف کون دے گا، اس وقت ریاست کی نمائندگی کرنے والا اٹارنی جنرل کون ہو گا، ان حالات میں ان کا تقرر بھی غلط ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ آخری حل نہیں ہے بلکہ آئین خود ہے، اگر اس کی خلاف ورزی شروع ہو جاتی ہے تو سپریم کورٹ پارلیمنٹ تو نہیں چلائے گی، یہ چیز تو ہوئی ہی صریحاً غلط ہے۔
ماہرین قانون عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے آج جو کچھ کیا وہ محض ایک آئینی آرٹیکل کا مضحکہ خیز غلط استعمال ہی نہیں تھا بلکہ یہ پی ٹی آئی کے اراکین کی طرف سے اسی طرح کے غلط استعمال اور عوامی طور پر آئین کی غلط تشریح کی کئی کوششوں کا نتیجہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے سیاسی حالات بدلتے جاتے ہیں، اسی طرح متعلقہ آرٹیکل بھی حکومت کے حملے کی زد میں آتے جاتے ہیں۔
عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ آئین کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کا موجودہ موسم آرٹیکل 63-اے کے ساتھ شروع ہوا تاکہ اپنے ہی اراکین کو تاحیات نااہلی کی دھمکی دی جا سکے، یہ کام اس سنجیدگی سے کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو اس پر غور کرنے کو کہا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ اگر غیرملکی مداخلت کے حوالے سے اس جھوٹ میں کچھ سچائی تھی بھی تو تو بھی جس عمل کے ذریعے اس کا فیصلہ ہونا چاہیے تھا وہ عدالت تھی، یہ دراصل اپوزیشن کے نمبر واضح ہونے کے بعد بنیادی طور پر اقلیتی حکومت کی جانب سے اکثریتی نمائندوں کو غدار قرار دیا گیا، یہ پاکستان کی اکثریت پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ اس بنیاد پر قوم کو دھوکا دے رہے ہیں کہ وہ آئینی عمل کے ذریعے حکومت کا خاتمہ چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر کے پاس آئین کی اس طرح تشریح کا کوئی اختیار نہیں ہے، پہلے تحریک عدم پیش ہونے کے بعد اجلاس بلانے میں تاخیر کی گئی اور پھر یہ نظرانداز کردیا گیا کہ آئین کیا مینڈیٹ دیتا ہے، ایک مرتبہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تو ایوان کی باقی تمام کارروائی روک کر تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کی جاتی ہے اور یہ کہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے والا وزیراعظم اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے۔
اس حکومت نے جس طرح سے حکومت نے اقتدار پر قبضے کے لیے آئین کو استعمال کرتے ہوئے واضح بددیانتی کو چھپانے کے لیے اسے استعمال کیا ہے، وہ ان کے ماضی کے اقدامات کی یاد دلاتا ہے۔
ماہر قانون مرزا معز بیگ نے کہا کہ آپ جس پارٹی کو چاہیں سپورٹ کریں لیکن آج آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا سیاہ دن ہے، جب آئینی اقدار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں تو ہم سب اجتماعی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔ یہ کتنا افسوسناک اور شرمناک انجام ہے!۔
https://twitter.com/MoizBaig26/status/1510542208151486466
ماہر قانون اسد رحیم خان نےڈان نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اس معاملے میں آئین سے انحراف کیا گیا ہے کیونکہ آرٹیکل 58 میں تفصیل بہت واضح ہے کہ جب تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹ نہ ہو جائے یا اس عمل کی پیروی نہ کی جائے اس وقت تک وزیراعظم پاکستان اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ تحریک عدم اعتماد کو اس طرح ختم کیا جا سکتا ہے اور آرٹیکل 58 کی وضاحت بھی اس نکتے سے بہت زیادہ واضح ہے۔ اسد رحیم نے اپنی ٹوئٹ میں پیش گوئی کی کہ ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کی تقدیر کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔
معروف قانون دان ریما عمر نے کہا کہ اگر مگر چھوڑیں کیونکہ اسپیکر نے آئین کی صریحاً خلاف ورزی کی اور عمران خان کے پاس صدر کو اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس بھیجنے کا کوئی اختیار نہ تھا۔
https://twitter.com/reema_omer/status/1510528227848204292
انہوں نے کہا کہ کسی ایسے شخص کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرنا کہ جس کے پاس اس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں، ایسے کام کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔
وکیل اور معروف سماجی کارکن جبران ناصر نے پیش گوئی کی کہ سپریم کورٹ ممکنہ طور پر تمام فیصلے ختم کر کے سابقہ فیصلے بحال کردے گی اور آئین کے مطابق دوبارہ تحریک عدم اعتماد کی ہدایت کرے گی۔
https://twitter.com/MJibranNasir/status/1510551035580137479
حسن کمال وٹو نے اسے قانون اور جمہوریت کے لیے سیاہ دن قرار دیا جبکہ مشرف زیدی نے عندیا دیا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ خارجہ پالیسی کی بنیاد پر الیکشن ہوں گے۔
https://twitter.com/hkwattoo1/status/1510520035974000642
کام نگار شمع جونیجو نے کہا کہ فواد چوہدری نے آئین کی غلط کی تشریح کی اور آئین کی خلاف ورزی پر وزیراعظم اور اسپیکر کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔
https://twitter.com/ShamaJunejo/status/1510523717855678466