آزاد کشمیر انتخابات میں مریم کا مزاحمتی بیانیہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی

آزاد کشمیر انتخابات میں مریم کا مزاحمتی بیانیہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی
آزاد کشمیر کے عام انتخابات اور سیالکوٹ میں ضمنی انتخاب میں ن لیگ کی شکست کے بعد ساری توپوں کا رخ مریم نواز اور نواز شریف کے بیانیے کی طرف موڑدیا گیا حالانکہ دیکھا جائے تو کشمیر کے عام انتخابات میں یہ بات پاکستانی سیاست کے ادنیٰ طالب علم کو بھی معلوم تھی کہ کشمیر میں اسی جماعت کی حکومت بنے گی جو اسلام آباد میں برسر اقتدار ہے اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔

لیکن میری رائے میں مریم نواز کو آزاد کشمیر انخابی مہم سونپی ہی اسی لئے گئی تھی کیونکہ ن لیگ کو وہاں اپنی شکست یقینی نظر آرہی تھی اس کی یہ وجہ نہیں تھی کہ ن لیگ آزاد کشمیر میں غیر مقبول تھی بلکہ اس کی وجہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی حکومت کا ہونا تھا اس لئے مشکل محاذ پر مزاحمتی ٹیم کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسکے دو فائدے تھے ایک تو یہ کہ پی ٹی آئی کے لئے الیکشن جیتنا مشکل بنایا جائے اور دوسرا الیکشن ہارنے کے بعد مفاہمتی بیانیے کے لئے اسپیس بنائی جائے۔ ظاہر ہے کہ ایک بیانیہ پٹے گا تو دوسرے کے لئے اسپیس بنے گی۔ اس کے بھی کئی پہلو ہیں ایک یہ کہ کیا یہ حکمت عملی شہباز شریف نے اکیلےبنائی؟ یا نواز شریف اور مریم نواز کی رضامندی سے پارٹی نے یہ حکمت عملی ترتیب دی؟ تاکہ کارکنان کے سامنے مفاہمتی بیانیہ اپنانے کی مناسب فیس سیونگ اور وجوہات پیش کی جاسکیں۔

اگر آنے والے دنوں میں نواز شریف اور مریم نواز خاموشی اختیار کرتے ہیں یا تنقید کا رخ عمران کی حکومت تک محدود کرلیتےاور شہباز شریف اپنے مفاہمتی بیانیے کے ساتھ بھرپور طریقے سے سامنے آتے ہیں جیسا کہ سلیم صافی کے ساتھ حالیہ انٹرویو میں سامنے آئے  ہیں تو یہ اس بات کی طرف اشارہ کرے گا کہ یہ سب کچھ سیاسی حکمت عملی کے تحت کیا گیا کیونکہ ویسے بھی مریم نواز اور نواز شریف اس وقت وزیراعظم کے امیدوار نہیں ہیں اس وقت وزیراعظم کے امیدوار شہباز شریف ہیں یہ بھی ہوسکتا ہے کچھ اور قوتیں بھی اس حکمت عملی کا حصہ ہوں جن کو مزاحمتی بیانیہ پسند نہیں ہے۔ اگر میرا اندازہ درست ہے اور اگر اس زاویے سے صورتحال کو دیکھا جائے تو آنے والےوقت میں زمین عمران خان کے پاؤں کے نیچے سے سرکتی ہوئی نظر آرہی ہے ایک طرف بلاول کی پیش قدمی ہوئی ہے تو دوسری جانب مسلم لیگ ن میں مزاحمتی بیانیے کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔

سوچیں اگر ایک طرف بلاول کی دوسری طرف شہباز شریف کی مقتدرہ کے ساتھ انڈر اسٹینڈنگ ہوجاتی ہے تو عمران خان کے متبادل کی خالی آسامی با آسانی پر کی جاسکے گی اگر ایسا ہی ہوا تو عمران خان پر دباؤ بڑھے گا اور اقتدار کو طول دینا ممکن نہیں رہے گا۔

ساتھ ہی میں اس بات کا ذکر ضرور کرونگا کہ جس طرح مریم نواز نے آزاد کشمیر میں انتخابی مہم لیڈ کی، جس قسم کا جوش و خروش ولولہ اور سائز ان جلسوں کا تھا تاریخ میں اس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ آزاد کشمیر سے تعلق ہونے کے ناطے میرے لئے یہ بات انتہائی حیرت کا باعث تھی کہ کچھ جلسےاور استقبال مغرب کے بعد بھی ہوتے رہے اور ان میں لوگوں کی بھرپور شرکت دیکھ کر میں حیران رہ گیا کیونکہ آزاد کشمیر میں مغرب کے بعد اس قسم کے بھرپور جلسے اور استقبال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے اور سب سے اہم بات یہ کہ مریم نواز کی انتخابی مہم کی وجہ سےہی کشمیر کے انتخابات کو پہلی بار اتنی اہمیت ملی اور پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ کشمیر جہاں اس سے پہلے الیکشن صرف ہوتا تھا وہاں الیکشن لڑا گیا۔ الیکشن کے نتائیج کیا نکلے یہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن چھ لاکھ کے مقابلے میں پانچ لاکھ ووٹ لینا مریم نواز اور جمہوریت کی جیت ہے۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔