کشمیر کے معاملے پر وزیر اعطم کے بدلتے بیانات: یہ یوٹرن نہیں بلکہ حکمت عملی ہے، صدر پاکستان

کشمیر کے معاملے پر وزیر اعطم کے بدلتے بیانات: یہ یوٹرن نہیں بلکہ حکمت عملی ہے، صدر پاکستان
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے کشمیر کے معاملے پر بدلتے ہوئے موقف کوئی یو ٹرن نہیں بلکہ بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق حکمت عملی ہے۔ انہوں نے یہ بات ڈان ٹی وی کے پروگرام میں کہی۔ صدر پاکستان سے جب کشمیر کے معاملے پر سوالات ہوئے تو پروگرام کے اینکر نے انہیں وزیر اعظم کے گزشتہ مہینوں میں کشمیر کے معاملے پر بدلتے ہوئے بیانات کے بارے میں استفسار کیا۔ اس پر عارف علوی کا کہنا تھا کہ یہ بیانات یو ٹرن نہیں ہیں بلکہ یہ بدلتی ہوئی صورتحال کے تحت بدلی ہوئی حکمت عملی کے تحت ہے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے جب سے حلف اٹھایا ہے وہ بھارتی وزہر اعظم نریندر مودی سے ملاقات یا معاملات کو ٹھیک کرنے کے خواہاں تھے۔ تاہم انہیں اس میں کامیابی نہ ملی۔
27 فروری 2019
اسی خواہش کے زور میں 27 فروری 2019 کو بھارت نے پاکستان کی ائیر سپیس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان میں مبینہ دہشت گردوں کے اڈوں پر حملے کا دعوی' کیا جسے پاکستان کی جانب سے مسلسل رد کیا گیا۔ جبکہ بھارت خود بھی اسکے کسی قسم کے کوئی ثبوت فراہم نہ کرسکا۔ جس کے بعد دونوں ملکوں کے بارڈر ایک دوسرے کے لیئے بند ہوگئے۔ اور ایک دوسرے کی اینٹرٹینمنٹ انڈسٹری بھی ایک دوسرے پر حرام ٹھہری۔ اسی طرح دو طرفہ تجارت پر بھی مہر لگ گئی۔ وزیر اعظم عمران خان اس کے بعد سے بھارت کے خلاف سخت موقف اپناتے نظر آئے۔
5 اگست 2019 اور وزیر اعظم عمران خان :
دو سال قبل اس روز بھارت نے کشمیر کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے ترقی و خوشحالی کے نام پر کشمیر کے آئینی حقوق سلب کرتے ہوئے اس سے اسکا خصوصی ریاستی سٹیٹس بھی چھین لیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس کے بعد سے خود کو سفیر کشمیر کہلوانا شروع کیا اور ہفتے میں ایک روز قوم کو سڑک پر کھڑا ہو کر احتجاج کی ذمہ داری دی۔ عمران خان نے اسی سال اقوام متحدہ میں بھی خطاب کیا جو کہ بطور سربراہ حکومت پاکستان انکا پہلا خطاب تھا۔ اس خطاب کو پاکستان میں بے حد سراہا گیا۔ اس خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے نریندر مودی کو فاشسٹ اور بھارتی حکومت کو فاشسٹ حکومت قرار دیا تھا۔
حالیہ پاک بھارت تجارتی تنازعہ:
ایک سال کرونا کی تباہ کاریوں میں گزر گیا جس کے بعد 2021 میں اچانک خبریں سامنے آئیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان عسکری سطح پر رابطے ہوئے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ یہ رابطے داراصل یو اے ای کے تعاون سے ہو رہے ہیں اور دونوں ممالک کے انٹیلیجنس حکام آپس میں کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ اس سب کے بعد معاملات پاک بھارت تجارت کے معمول پر آنے سے متعلق طے ہونے لگے۔ اپریل میں اچانک خبر آئی کہ حکومت کی جانب سے بھارت سے شکر، کپاس اور دیگر اشیا کی تجارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تاہم اچانک سے اگلے ہی روز وزیر اعظم اس معاملے پر برہم دکھائی دیئے اور اس اجازت کی منسوخی کا حکم دیا جس کو انہوں نے بطور وزیر تجارت خود جاری کیا تھا۔ اس معاملے ہر فواد چوہدری کا وہ بدنام زمانہ بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے انگریزی محاورہ استعمال کرتے ہوئے اس معاملے کی توجیح پیش کی اور کہا کہ وزیر اعظم جب وزیر اعظم ہوتے ہیں تو وہ ایک کیپ( ٹوپی/عہدہ) پہنتے ہیں اور جب وہ وزیر ہوتے ہیں تو دوسری کیپ۔
وزیر اعظم کا حالیہ اعادہ:
پاکستانی صحافتی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس وقت بھارت سے معاملات نارمل چاہتی ہے تاہم وزیر اعظم اسکی سیاسی قینت دینے کے ہ گز موڈ میں نہیں اور اسی حوالے سے انہوں نے سخت بیان بھی دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر کشمیر کے معاملے ہر کسی بات کے بغیر بھارت سے تجارت کی تو وہ کشمیریوں کے ساتھ غداری ہوگی۔
عمران خان کا بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو انٹرویو:
وزیر اعظم عمران خان نے چند دن پہلے ایک انٹرنیشنل چینل کو کہا تھا کہ بھارت سے بات ہو سکتی ہے اگر وہ کشمیر کو پرانے سٹیٹس پر بحال کرنے کا کوئی روڈ میپ دے تو۔ یاد رہے کہ صدر پاکستان سے بھی یہ سوال اسی انٹرویو کے تناظر میں ہوا تھا