مِنی بس ڈرائیور نے سڑک کے کنارے کھڑی مشکوک عورت پر کوٸی توجہ ہی نہیں دی اور چینی ثقافتی مرکز میں داخل ہونے کے لیے گاڑی کو موڑ دیا۔ شاید اس نے اگلا لمحہ دیکھا ہی نہیں ہو جو سی سی ٹی وی فوٹیج میں ریکارڈ ہوا، جب روایتی لباس میں ملبوس برقع پوش ایک خاتون نے مخالف سمت میں چہرہ کرکے معمولی جنبش کے ساتھ دھماکا خیز مواد سے بھرے کندھوں پر لٹکاٸے بیگ کو دھماکے سے اڑا دیا۔
ویڈیو میں خود کش حملہ آور 31 سالہ خاتون جسے شاری بلوچ کے نام سے پہچانا گیا، فوراً ایک آگ کے شعلے میں مِنی بس کے گرد بکھر گئی۔ مِنی بس میں سوار چار افراد بشمول تین چینی اساتذہ کے مارے گٸے جو کہ کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس ادارے میں چینی زبان پڑھانے جا رہے تھے۔
حملے کو فوراً بعد کالعدم مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کیا جو کہ پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان کی آزادی کے لیے لڑنے والی ایک کالعدم تنظیم ہے۔ یہ اکثر چینی اہلکاروں کو نشانہ بناتی ہے۔
الجزیرہ کو بھیجے گٸے ایک ای میل میں گروپ نے دعویٰ کیا ” اس مشن کو اولین بلوچ خاتون فداٸیں (شہید) نے سر انجام دیا۔“ ای میل میں انہوں نے مزید کہا کہ ” کنفیوشس انسٹیٹیوٹ جو کہ چین کے معاشی، ثقافتی اور سیاسی توسیع پسندی کی علامت ہے، کے ڈائریکٹر اور اہلکاروں کو نشانہ بنانے کا مقصد چین کو ایک واضح پیغام دینا ہے کہ بلوچستان میں اس کی براہ راست یا پھر بالواسطہ موجودگی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاٸے گا۔“
بی ایل اے نے اپنے جاری کردہ بیان میں چین کو خبردار کیا کہ وہ فوراً اپنے ”استحصالی منصوبوں“ کو پاکستان میں روک دے۔ گروپ نے مزید خبردار کیا کہ بصورت دیگر اس کے سیکڑوں اعلٰی تربیت یافتہ ”مرد اور خواتین ارکان“ مستقبل میں سخت ترین حملے کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بی ایل اے کی پہلا خاتون خود کش حملہ آور
مجید بریگیڈ بی ایل اے کا وِنگ، جو کہ خود کش حملے منظم کرنے کا ذمہ دار ہے، نے کہا ہے کہ یہ ان کا اوّلین آپریشن ہے جسے ایک خاتون نے سر انجام دیا۔ خاتون حملہ آور کی آمد نے پاکستان کے سیکیورٹی تجزیہ نگاروں کو پریشانی اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے جن کا ماننا ہے کہ یہ حملہ علیحدگی پسندوں کے ”شدید وسخت بنیاد پرستی“ کا اظہار کرتا ہے جو کہ پچھلے 20 سال سے ایک خون ریز بغاوت کر رہے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک بلوچ علیحدگی پسند خود کش حملوں بالخصوص خواتین کے خود کش حملوں کی مذمت کرتے تھے۔
وہ اپنے آپ کو کو سیکولر قوم پرست کے طور پر دیکھتے ہیں اور اُن مسلمان گروپوں کے ساتھ ان کی بہت ہی کم مشابہت ہے۔ جیسے کہ پاکستانی طالبان خود کش حملوں کا وسیع پیمانے بلکہ پاگل پن کی حد تک استعمال کرتے ہیں۔
محمد عامر رانا اسلام آباد میں رہنے والے سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں بلوچ بغاوت آگے بڑھتے ہوٸے تیزی سے پیرو کے باٸیں بازو کے ”شاٸننگ پاتھ“ نامی مسلح گروپ سے مشابہت رکھتی ہے جو کہ اپنے ظالمانہ کاررواٸیوں کےلیے جانا جاتا ہے۔
پیرو گروپ کے مرکزی رہنما بھی مزاحمت کی بات کرتے ہوٸے اکثر چے گویرا، نیلسن منڈیلا اور بھگت سنگھ کی مثالیں دیتے ہیں۔ وہ بھی مذہبی شدت پسندی کی مذمت کرتے ہیں۔
عامر رانا نے الجزیرہ کو مزید بتایا کہ ” گروپ (بی ایل اے) کو بھی مسلح اسلامی گروپوں کے کے طریقہ کار کے استعمال سے اس وقت تک کوٸی مسٸلہ نہیں جب تک اس کے تحت مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں۔“
شاری بلوچ اس بات کی واضح علامت ہیں کہ علیحدگی پسند تحریک جسے ایک وقت قباٸلی سربراہ چلاتے تھے آج کس طرح بلوچستان کے اکثریتی اعلٰی تعلیم یافتہ اور پیشہ ور مڈل کلاس لوگوں کے ہاتھ میں آگٸی ہے۔
پاکستان کی ایک سیکیورٹی ایجنسی کے الجزیرہ کو بھیجے گٸے ایک ڈاکیومنٹ کے مطابق زوالوجی میں ماسٹرز ڈگری رکھنے والی شاری بلوچ ایک سکول ٹیچر تھیں، اور جس وقت اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا اس وقت وہ کراچی یونیورسٹی کے ایک اور پوسٹ گریجویٹ پروگرام میں داخل تھیں۔
شاری بلوچ کے شوہر ایک ڈاکٹر (ڈینٹسٹ) اور مکران میڈیکل کالج میں پروفیسر ہیں۔ اس کے والد ایک ریٹاٸرڈ سرکاری ملازم ہیں۔ وہ تربت یونیورسٹی میں رجسٹرار رہ چکے ہیں جو کہ ان کا آباٸی علاقہ بھی ہے۔
شاری بلوچ کے تین بھاٸیوں میں سے ایک ڈاکٹر ہے، ایک گورنمنٹ کے فنڈ کردہ پروجیکٹ میں ڈاٸریکٹر ہے اور ایک بھاٸی سرکاری ملازم ہے۔ پانچ بہنوں میں سے ایک بہن تربت یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے۔ شاری بلوچ کے چچا ایک ریٹاٸرڈ پروفیسر ہیں اور ایک نامور مصنف، شاعر اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن بھی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ شاری بلوچ کے کم از کم دو رشتہ دار بلوچستان میں جاری مسلح جدوجہد کا حصہ رہے ہیں۔
چینی سرمایہ کاری کی مخالفت
1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد سے اب تک بلوچستان میں پانچ بغاوتیں ہوٸی ہیں، 2000ء میں شروع ہونے والی موجودہ تحریک سب سے طویل ترین ہے۔ اس لڑاٸی میں ہزاروں لوگ مارے گٸے ہیں۔ کٸی لوگ باغیوں کی معاونت کے شبے میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے غیر قانونی طور پر لاپتا کر دیے گٸے ہیں۔
2018ء میں بلوچ قوم پرست پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل نے 5000 افراد کی ایک لسٹ اس وقت عمران خان کی حکومت کو پیش کیا تھا، خدشہ ہے کہ یہ لوگ جبری گمشدگی کا شکار بناٸے گٸے ہیں۔ لیکن دو سال بعد مینگل نے مخلوط حکومت سے یہ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کر لی کہ حکومت لاپتا افراد کو ڈھونڈنے میں ناکام ثابت ہوٸی ہے۔
خطے میں سڑکوں، پاور سٹیشنز اور بحیرہ عرب میں گوادر پورٹ پر خطیر سرمایہ کاری کرنے پر بلوچ قوم پرست چین کے مخالف ہیں۔ بیجنگ کو وہ لوٹ مار کرنے، وساٸل لوٹنے اور مقامی آبادی کو کوٸی فاٸدہ نہ پہنچانے کا مورِد الزام ٹھہراتے ہیں۔
بی ایل اے چین پر الزام عاٸد کرتا ہے کہ وہ ناصرف پاکستان کی مالی معاونت کر رہا ہے بلکہ پاکستانی فوج کو سازوسامان دے کر باغیوں کے خلاف جنگ میں اسے مضبوط بھی کر رہا ہے۔
آزادی پسندوں کو خوف لاحق ہے کہ سرمایہ کاری کی یہ لہر پاکستان کے دوسرے حصوں سے لوگوں کو صوبے میں آنے پر ابھارے گی جس کے نتیجے میں وہ اپنے روایتی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ حالیہ سالوں میں چینی شہریوں پر بلوچستان اور کراچی میں حملوں کا ایک سلسلہ رہا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ حملے کی مذمت کی اور اظہار افسوس کے لیے اسلام آباد میں چینی سفارتخانے کا دورہ بھی کیا۔ وزیراعظم نے متعلقہ حکام کو پاکستان میں چینی شہریوں اور اداروں کی سیکیورٹی بڑھانے کا حکم بھی دیا۔
مشل کگلمین امریکہ میں مقیم پاکستان کے ماہر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایسے حملوں سے چین پسپا نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ”چین اپنی سرمایہ کاری کی حکمت عملی کے لیے بشمول دہشتگردی کے بہت سارے خطرات کا سامنا کرنے کو تیار ہے۔ یہ حملہ چین کو سامان سمیٹ کر پاکستان چھوڑنے پر آمادہ نہیں کرے گا۔“
امن کے کوششوں کی ضرورت
پاکستان میں ہونے والے حالیہ خود کش حملے کے پیچھے مجید بریگیڈ کا ہاتھ ہے۔ 2018ء میں چینی کونسل خانے پر حملے سمیت 2020ء میں کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملہ بھی اسی نے کیا تھا۔
یہ گروپ ( مجید بریگیڈ) 2011ء میں بنایا گیا تھا جسے عبدالمجید بلوچ کا نام دیا گیا تھا، جس نے 1974 میں پاکستان کے سابقہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ بھٹو نے ایک سال قبل بلوچ قوم پرستوں کے خلاف ملٹری آپریشن کا حکم دیا تھا۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بھٹو کے قتل سے قبل ہی مجید کو مار دیا تھا۔
بلوچستان میں باغیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر عسکری کریک ڈاٶن کے ساتھ دفاعی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اب لگتا یہی ہے کہ بی ایل اے ایک بار پھر کراچی کو اپنی تواناٸیوں اور توجہ کا مرکز بناٸے گی اور خواتین جنگجوٶں کا استعمال کرے گی کہ وہ نظر میں آٸے بغیر کام کر سکتی ہیں۔
اینڈریو سمال جو چین کے ماہر ہیں اور جرمن مارشل فنڈ پروگرام میں ٹرانس ایٹلانٹک فیلو بھی ہیں۔ انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ ” یقیناً 2000ء کے بعد سے اس وقت یقیناً چین کو شدید سیکیورٹی مشکلات کا سامنا ہے، مگر اب معاشی سرمایہ کاری بھی بہت بڑی ہے اسی لیے دونوں اطراف کے لیے اس وقت بہت کچھ داٶ پر لگا ہوا ہے۔“
اسلام آباد میں مقیم صحافی مبشر زیدی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی نٸی حکومت مین سٹریم بلوچ سیاستدانوں سے رابطہ کرے اور ان کے ذریعے علیحدگی پسندوں تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ آج پاکستان کو درپیش دہشتگری کی لہر کا بنیادی چیلنج یہ ہے کہ بلوچ علاقوں میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت کی جاٸے۔
”یہی وقت ہے کہ امن کے لیے کوششیں کی جائیں“
بلوچ خاتون کی جانب سے کئے گٸے خود کش حملے نے باقی خواتین کو بھی خوفزدہ کیا ہے جو کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج کرتے ہیں جنہیں پاکستان کے خفیہ اداروں نے اٹھایا ہے۔
23 سالہ سمی بلوچ جن کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ 2009ء سے اب تک لاپتا ہیں، کہتی ہیں،” بغاوت میں یہ بدلاٶ خوفناک ہے“۔ سمی اس وقت 10 سال کی تھیں جب ان کے والد کو بلوچستان کے ضلع خضدار میں اس کے کلینک سے اغوا کیا گیا، تب سے وہ اسلام آباد، کراچی، اور کوٸٹہ میں اپنے والد کی بازیابی کےلیے احتجاج کرتی رہی ہیں۔
سِمی نے الجزیرہ کو بتایا کہ ”لاپتا افراد کے لواحقین پہلے سے ہی ان کی نظر میں ہیں۔ ایسا حملہ پاکستانی اداروں کو جواز فراہم کرے گا کہ وہ پرامن خواتین کو بھی دباٸیں جو سالوں سے پرامن طورپر اپنے پیاروں کی بازیابی کےلیے جدوجہد کرتی آرہی ہیں۔“
یہ تحریر الجزیرہ انگلش اور لکھاریوں کے شکریے کے ساتھ شائع کی جا رہی ہے۔
تحریر: کِیا بلوچ، اکبر نوتیزئی
انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل