اس سال بھی ہمیشہ کی طرح رسمی کارروائی پوری کرتے ہوۓ چند یوم قبل ملک میں عوامی اور سرکاری سطح پر کشمیر سے یکجہتی کا اعلان کیا گیا۔ اس سال بھی ہمیشہ کی طرح وزیراعظم پاکستان نے عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کو مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ کی یاددہانی کروائی۔اس سال بھی دفتر خارجہ پاکستان کی طرف سے ہمیشہ کی طرح رٹا رٹایا بیان جاری کیا گیا کہ پاکستان کشمیر کے موقف پر قائم ہے۔
یہ تمام بیانات سن کر اور پڑھ کر مجھے اپنے ایک مرحوم سکول کے استاد کی بات یاد آ گئی جو کہا کرتے تھے کہ کشمیر تا قیامت آزاد نہیں ہو سکتا۔
اس وقت ان کی یہ بات سن کر غصہ محسوس ہوتا تھا مگر اب ان کی بات کو سمجھنے کی توفیق ملی تو محسوس ہوا کہ ان کی بات کا مطلب وزارت خارجہ کے رٹے رٹاۓ بیانات اور حکومت کے ہوا میں تیر چلانے سے متعلق ہو گا اور اگر ایسے ہی ہر سال ریلیاں نکال کر حکومتی سطح پر بیانات داغ کر ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر آزاد ہو جاۓ گا تو خدانخواستہ یہ تو ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔
اس بات میں بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے زیادہ تر مسائل اور کشیدگی کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے، گویا جب تک کشمیر کے باسیوں کو آزادانہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں مل جاتا اور ان کے مسائل پر سیاست کا کھیل بند نہیں ہو جاتا تب تک دونوں ممالک کے بجٹ کا زیادہ حصہ دفاع پر خرچ ہوتا رہے گا۔ تب تک دونوں ممالک کے عوام مہنگائی اور غربت کی چکی میں پستے رہیں گے۔ تب تک دونوں ممالک کے عوام کی ایک دوسرے کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا چلا جاۓ گا اور تب تک مزہبی اور سیاسی انتہا پسند ذہن رکھنے والے افراد عوام کے مخصوص طبقہ کو اپنے مقاصد کے لیۓ استعمال کرتے رہیں گے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کو قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور بھارت کے پاس کشمیر پر ناجائز قبضہ برقرار رکھنے کا کوئ قانونی اور اخلاقی جواز موجود نہیں ہے۔موجودہ بھارتی وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر کے متنازعہ علاقہ کو بھارت میں ضم کر کے معاملہ کو سلجھانے کی بجاۓ مزید بگاڑ دیا اور اسی بہانہ کشمیر میں مزید بھارتی فوج تعینات کر دی۔بعض اوقات حالات یوں لگتے ہیں کہ گویا مودی مقبوضہ کشمیر میں زبردستی ہندو آبادی زیادہ قائم کرنا چاہ رہے ہوں اور مسلمانوں کی تعداد کم کرنا چاہ رہے ہوں۔تاکہ اس سب کے بعد وہاں دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیۓ کشمیریوں کو ان کے فیصلے کا اختیار دے کر ہندو اکثریت سے ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ کروا سکیں۔
یہ تو بات ہو گئی بھارت کے تیور کی جو وہ کشمیر کے بارے میں رکھتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کشمیر کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ تو جناب بدقسمتی سے ہم اس معاملہ میں کبھی کشمیر کمیٹی بنا کر اپنے خیر خواہوں کو عہدوں سے نواز کر کشمیریوں کے نام پر فنڈ کھلا کر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کبھی ہم جلسے،ریلیاں اور سرکاری تعطیل منا کر ان سے بھائ چارے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ہم ابھی تک اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں کہ اس دنیا کا قانون بھی ہمیشہ طاقتور کی سنتا ہے۔ ہم چاہے جتنا مرضی نعرے لگا لیں،بھارت کو کوس لیں، اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکٹا لیں اور سرکاری تعطیل منا لیں مگر اس وقت تک کشمیر کے بارے میں ہماری شنوائ نہیں ہو گی جب تک دنیا کے ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک کی صف میں ہمارا مقام نہیں ہو گا۔
دنیا کے طاقتور ممالک کی صف میں کھڑا ہونے کے لیۓ ہمیں دوسروں کی بجاۓ خود پر انحصار کرنا ہو گا اور اپنا کشکول توڑنا ہو گا۔
یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیۓ کہ دنیا میں مانگنے والے کی کوئ عزت نہیں ہوتی۔جب ہم بحیثیت قوم اور سیاستدان اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہوں گے اور ملک کی معیشت کی بہتری میں کردار ادا کر کے پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے والے ہوں گے تب ہی عالمی برادری بھی کشمیر کے موقف پر ہمارے ساتھ کھڑی ہو گی اور تب ہی کشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق آزاد زندگی گزارنی نصیب ہو سکے گی۔
اس میں سب سے بڑی ذمہ داری حکومت وقت کی ہے جو کہ ملک میں دودھ کی نہریں بہانے کا وعدہ کر کے اقتدار میں آئی ہے اور کشمیر کے موقف کو ثابت کرنے کے لیۓ صرف تقریریں کرنے کی بجاۓ ملک میں معیشت کی مضبوطی کے فوری عملی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔