چار آدمی اٹھتے ہیں اور کسی پر توہین کا الزام لگا کر قتل کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ عوام کو بتاتے ہیں کہ اس شخص نے اسلام کی عظیم ہستیوں کے نام کی، کسی کتاب کے عنوان کی، کسی کتاب کی، کسی شعائرِ دین کی بے حرمتی کی ہے اور جنگل کے تمام وحشی اٹھ کر آدم بو، آدم بو کرتے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ کونساواں واقعہ ہے؟ اب تو کوئی حساب کتاب بھی نہیں رکھا جاتا۔ اور اس حساب کے رکھنے کا مقصد کیا ہے؟ اعداد و شمار اس لئے رکھے جاتے ہیں کہ مستقبل کے بارے میں ایک درست اندازہ لگایا جا سکے۔ مثلاً اگر ملک میں اتنے پاگل ہیں اور اتنے ٹھیک تو اوسطاً ایک سال میں اتنے لوگ قتل ہونے چاہئیں، تقریباً اتنے لوگوں پر حملے ہوں گے، اتنی عبادت گاہیں جلائی جائیں گی، اتنے دھماکے ہوں گے، اتنے جلوس نکلنے ہیں تو ان میں سے کتنوں کو خطرہ ہوگا، کس کس جگہ پر خطرہ ہوگا اور سب سے اہم یہ کہ کتنے لوگوں کو مجمعوں میں قتل کیا جائے گا۔
یہاں کیا فائدہ ہے ان اعداد و شمار کا؟ جون ایلیا کے الفاظ میں یہاں تو سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔ کب کون کس پر فتویٰ صادر کرے اور درجنوں بلکہ سینکڑوں افراد سڑکوں پر آ کر اس کے خون کے پیاسے ہو جائیں، یہ کون کہہ سکتا ہے؟ مارنے والے میڈیا پر آ کر اعلان کرتے ہیں کہ اس شخص نے فلاں کاغذ کو جلایا ہے، فلاں پوسٹر پر فلاں عبارت لکھی تھی، یہ نہیں جانتا تھا اس کا کیا مطلب ہے، اس کو جان سے مارنے کا ہم نے فیصلہ کیا ہے، اور وہ پھر یہ کر گزرتے ہیں۔
1993 میں ڈاکٹر سجاد کا واقعہ ہو، 2009 میں نجیب ظفر کا، 2017 میں مشعال خان اور 2021 میں ایک سری لنکن شخص جس کو شاید علم بھی نہ ہو کہ جس چیز کی بے حرمتی کا اس پر الزام عائد کر کے اس کو گھسیٹ گھسیٹ کر مارا جا رہا ہے، وہ کسی مذہب میں کوئی مقدس لفظ ہے۔ سلمان تاثیر، شہباز بھٹی، شمع اور شہزاد مسیح، خوشاب کا بینک مینیجر، کراچی کا جگدیش کمار، حاصل پور کا ماسٹر صادق، فیصل آباد کے راشد اور ساجد ایمینوئل، بہاولپور میں کالج میں پڑھانے والا انگریزی کا استاد، پشاور میں ایک ذہنی توازن کھو بیٹھا شخص، لاہور میں سکیورٹی گارڈ، پشاور میں بازار سے مہمانوں کے لئے سودا سلف لاتے بچے کا باپ یا پھر لاہور میں نیشنل کالج آف آرٹس کا قطب رند، ان میں سے کسی پر آج تک توہینِ مذہب ثابت نہیں ہو سکی۔ کس کس کو روئیں؟ اعداد و شمار کے مطابق 100 سے زائد افراد اس ملک میں اب تک پولیس کی تحویل میں، عدالتوں کو لے جاتے ہوئے یا پھر یوں ہی سڑکوں پر کچھ بھی ثابت ہونے سے پہلے جتھوں کے انصاف کی نذر ہو چکے ہیں۔
تو پھر یہ اعداد و شمار کس کام کے ہیں؟ آپ کچھ predict نہیں کر سکتے۔ آپ کے پاس ایسا کوئی آلہ نہیں جس سے آپ ایک ٹرینڈ کی طرف اشارہ کر سکیں۔ یہاں تو حال وہی ہے کہ جیسے عظیم باکسر محمد علی سے ایک مرتبہ ایک انٹرویو کے دوران پوچھا گیا کہ آپ تمام گوروں کو کالوں کا دشمن کیوں قرار دیتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ سوچیے کہ میرے گھر کے باہر 1000 گورے نہیں سانپ کھڑے ہیں۔ اب میں جانتا ہوں کہ ان میں سے سو سانپ ایسے ہیں جن کے پیٹ بھرے ہیں، یہ مجھے کھانا نہیں چاہتے۔ لیکن یہ سوچ کر میں اپنے گھر کے دروازے کھلے نہیں رکھ سکتا کیونکہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ باقی 900 سانپ میرے دوست نہیں ہیں۔ ہمیں اس ملک میں آج اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ہم میں سے کچھ سانپ ہیں، کچھ سنپولیے اور کچھ بڑے بڑے اژدھے۔ سنپولیے وہ ہیں جو اعلان کرتے ہیں کہ آج ہم فلاں کا شکار کرنے جا رہے ہیں۔ سانپ وہ جو ان کی ذہن سازی کرتے ہیں، ان کے کچے ذہنوں میں یہ خناس بھرتے ہیں کہ تمہیں اس دین کو بچانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مجبور اور بے کس ہے، اس کے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ تم اس کو بچانے کے لئے سڑکوں پر لوگوں کی لاشوں کو گھسیٹو۔ اور اژدھے وہ ہیں جو اس ریاست کے کرتا دھرتا ہیں۔ جو ہمیں دن رات بتاتے ہیں کہ مغربی تہذیب نے ہمارے گھروں میں طلاقیں کروا دیں۔ جو ہمیں دن رات بتاتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے اور میں اس خطرے کا سدِ باب کر رہا ہوں۔ جو کبھی ختمِ نبوتؐ کے سپاہی بنتے ہیں تو کبھی توہینِ مذہب کے نام پر اتحاد بین المسلمین کے داعی۔ انہیں شرم اب بھی نہیں آئے گی۔ کیونکہ ان کے نزدیک ووٹ حاصل کرنے کے لئے مذہب کا استعمال اس کی بے حرمتی کے زمرے میں نہیں آتا۔ ان کے نزدیک آج جو کچھ سیالکوٹ میں ہوا یہ بھی یقیناً خونی لبرلز کی کارروائی ہوگی جو انہیں بار بار کہتے ہیں کہ مت پلاؤ اس سانپ کو دودھ، یہ کسی کا نہیں ہوگا۔ یہ تمہارا بھی نہیں ہوگا۔ یہ تمہیں بھی نگل جائے گا اور اس ملک کو بھی۔
تو بھائیو، آج میری آپ سے یہی گذارش ہے کہ بھول جائیے اس ملک کی بہتری کے جو آپ نے خواب دیکھے تھے۔ آپ چاروں طرف سے چھوٹے، بڑے سانپوں میں گھر چکے ہیں۔ یہ ریاست ان سانپوں کی آبیاری کرتی ہے۔ اس کے حکام خود ان سانپوں کو پیدا کرنے والے، ان کو دودھ پلانے والے ہیں۔ اور کسی غلط فہمی میں نہ رہیے گا۔ جس دن آپ کو کوئی جتھہ سڑک پر جلا کر مار دے گا، آپ کے اپنے خاندان کے لوگ بھی کہہ رہے ہوں گے کہ آپ نے ہی کچھ غلط کیا ہوگا۔ یہاں مخاطب صرف وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی زندگیوں، اپنے خاندانوں، اپنے بچوں، اپنے والدین پر کوئی رحم آتا ہے۔ جن کے سروں پر خون سوار نہیں۔ ان سب کے لئے بچت کا ایک ہی راستہ ہے کہ یہاں سے بھاگ جائیں۔ کچھ بھی کر کے، اس ملک سے نکل جائیں۔ سمندر میں اتر جائیں خدا کے بھروسے۔ اگر اپنی اولاد کو لیکن آپ ایسی اذیت ناک موت مرتا نہیں دیکھنا چاہتے تو پاکستان سے بھاگ جائیں۔ اس ملک پر سانپوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔