کچھ عرصہ قبل دبئی کے سفر کے دوران بھارتی اداکارہ پریانکا چوپڑہ اور انڈین نژاد ڈاکٹر فیاض شال کے جھگڑے کی خبریں انڈین میڈیا میں چھپی تھیں جس میں پریانکا چوپڑا نے الزام عائدکیا تھا کہ نشے کی حالت میں ڈاکٹر شال نے ان سے بد تمیزی کی، دھمکیاں دیں اور بنا اجازت ان کی وڈیو بنائی۔
وہی ڈاکٹر شال اس مرتبہ پاکستان میڈیا میں خبروں کی شہ سرخیوں کی زینت بنے جب انھوں نے میاں نواز شریف کی ممکنہ بیماری "بروکن ہارٹ سنڈروم" کے حوالے سے اپنی رائے دی جسے کورٹ میں جمع کروایا گیا ہے۔ اس رائے یا رپورٹ میں میاں صاحب کے سفر کرنے سے اجتناب، ہسپتال سے قریب رہنے اور دیگر عمومی ہدایات دی گئی ہیں مگر اس کے جمع کروانے کے بعد میاں صاحب کا بائے روڈ ڈھائی سو کلومیٹر کا سفر طے کر کے ایک فیکٹری میں بزنس وزٹ کرنا اس رپورٹ کی صداقت پر سوالیہ نشان ہے نیز میاں صاحب کے واپس نہ آنے پر کچھ مخصوص صحافیوں کے میاں صاحب کی واپسی کے اعلانات، پراپیگینڈے اور ان کی چڑیوں اور طوطوں کی پیشگوئیاں بھی ماضی کی طرح ایک بار پھر سے غلط ثابت ہوگئی ہیں۔
اگرچہ اٹارنی جنرل آف پاکستان کے شہباز شریف کو لکھے گئے خط کے جواب میں یہ رپورٹ جمع کروائی گئی ہے جس کے حوالے سے حکومتی ارکان اور میڈیکل فیلڈ سے وابستہ کچھ ماہرین کا اصرار ہے کہ یہ "رائے" ہے "رپورٹ" نہیں کیونکہ اس میں کسی قسم کے کسی لیبارٹری ٹیسٹ کی رپورٹ منسلک نہیں ہے نیز یہ بیماری چونکہ نوے فیصد عورتوں کو لاحق ہوتی ہے اس لئے سوشل میڈیا پر بھی اس کا مذاق اڑایا جارہا ہے مگر ان سب باتوں میں اہم نکتہ یہ ہے کہ ڈیل، ڈھیل اور واپسی کی باتیں صرف قصہ کہانیوں تک محدود تھیں اور میاں صاحب مقتدر حلقوں سے کسی بھی قسم کا ریلیف حاصل کرنے میں ناکام رہے اور بناء کسی مضبوط گارنٹی کے ان کا پاکستان واپس آنا ممکن نظر نہیں لگ رہا تھا جس کو اس رپورٹ یا رائے نے تقویت پہنچائی ہے اور اس کا سیاسی نقصان بحرحال نون لیگ کو اٹھانا پڑے گا جس سے وہ مزید دیوار کے ساتھ لگ جائے گی۔
اس سے ہٹ کر ایک طرف خیبر پخنونخواہ کے بلدیاتی الیکشن میں جیتنے والے چالیس کے قریب آزاد امیدواروں کی اور جنوبی پنجاب سے نواب آف بہاولپور کے صاحبزادے کی تحریک انصاف میں شمولیت نیز جسٹس عمر عطاء بندیال کی حلف برداری اور سپریم کورٹ بار کی درخواست خارج ہونے سے بھی حکمران پارٹی کی سانسیں کچھ بحال ہوئی ہیں، دوسری طرف نہ صرف ماضی میں ہر موقعے پرحکومت کو سہارا دینے میں پیپلز پارٹی کے کردار نیز سینٹ میں حالیہ پاس ہونے والے بل اور اپوزیشن کے لانگ مارچ سے پہلے کے پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ سے بھی یہ بات واضح نظر آرہی ہے کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ کے مصداق درپردہ اور بھی بہت کچھ کھیل کا حصہ ہے جس کا حتمی نتیجہ بحرحال یہ نظر آرہا ہے کہ خان صاحب کی حکومت کو اپوزیشن سے کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں اور وہ اپنی آئینی مدت پوری کرتے نظر آرہے ہیں۔
تمام تر نا اہلیوں اور ناکامیوں کے باوجود جب کہ ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری کاطوفان برپا ہے اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کے مدمقابل فی الحال نون لیگ سمیت کوئی جماعت نظر نہیں آرہی کیونکہ پیپلز پارٹی سندھ کے علاوہ کہیں سے قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکتی۔ الٹا موجودہ کارکردگی پر سندھ بھی اس کے ہاتھوں میں کمزور ہوتا نظر آرہا ہے جب کہ تحریک لبیک اور جے یو آئی سمیت دیگر جماعتیں اپنا حصہ بقدر جثہ تو وصول کر سکتی ہیں مگر کوئی بڑا اپ سیٹ کرتی نظر نہیں آرہیں۔ نون لیگ خیبر پختونخواہ, سندھ اور بلوچستان میں اپنی طاقت کھو چکی ہے صرف ایک پنجاب اس کے ہاتھ میں ہے جس کی آبادی اور سیٹوں کے تناسب کی وجہ سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ قابل ذکر اکثریت لے سکے مگر ابھی یہ سب بہت قبل از وقت ہے۔
حکومت اگر شہباز شریف کو مجرم قرار دلوانے میں کامیاب ہوگئی تو میاں صاحب اور مریم نواز کی نا اہلی کی وجہ سے وزارت عظمی کے لئے نون لیگ میں ممکنہ تقسیم یا دراڑوں سے اگلے الیکشن میں بھی فتح تحریک انصاف کی جھولی میں گرتی نظر آرہی ہے خاص کر ایسی صورت میں جب کہ ابھی بھی عمران خان کے ہاتھ میں اہم تعیناتیوں اور ڈیڑھ سال کے وقت کی صورت ترپ کے پتے موجود ہیں جس میں بہت کچھ کنٹرول اور بہتر کیا جا سکتا ہے۔
اگر ان تمام فیکٹرز کو نظر انداز کر کے حکومت صرف الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر انتخابات کروانے اور اورسیز پاکستانیوں کے ووٹ جو کہ ایک کروڑ کے قریب ہیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اسے اگلے الیکشن میں ہرانا نا ممکن ہوجائے گا اور یہی اپوزیشن کا سب سے بڑا درد سر ہے جس کا فیصلہ بحرحال آنے والا وقت کرے گا۔