Get Alerts

کیا ووٹ کو عزت دو کے نعرے کا قتل عام کیا جا رہا ہے؟

کیا ووٹ کو عزت دو کے نعرے کا قتل عام کیا جا رہا ہے؟
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی حمایت کا فیصلہ کر لیا، یہ وہ خبر ہے جس پر یوتھیوں اورجیالوں سے زیادہ پٹواری بلبلا رہے ہیں اور ردِ عمل کا اظہار کچھ اس طرح کر رہے ہیں کہ گویا جیسے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔

حقیقتِ حال یہ ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کسی فرد واحد یا کسی ایک جنرل کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے نہیں ہو رہی اور یہ ترمیم، پاکستان کی پارلیمنٹ، عمران خان کی ذاتی فوج کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کی فوج کے حوالے سے کرے گی۔ یہاں یہ بات اچھی طرح واضع رہے کہ ترمیم میں صرف’’ایکس ٹینشن‘‘ پر قانون سازی نہیں ہو گی، بلکہ فوج کے بجٹ پر آڈٹ، جرنیلوں کی تنخواہوں، مراعات، لامحدود اختیارات اور وہ امور بھی پارلیمنٹ میں زیرِ بحث آئیں گے جن پر اس سے پہلے ستّر برسوں سے چہ مگوئیوں اور اشاروں میں باتیں ہوتی رہی ہیں۔

اب اگر کسی شخصیت سے متعلق نہیں بلکہ ایک سرکاری عہدے سے متعلق اگر قانو ن سازی ہونے جا رہی ہے جس سے پارلیمنٹ کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے جو’’ن‘‘ لیگ کا بیانیہ بھی ہے، تو پھر اس جھگڑا کس بات کا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نظریاتی کارکنوں کو یہ بات پلّے باندھ لینی چاہیے کہ اگر وہ اس ملک میں کسی مضبوط جمہوری نظام کے خواب دیکھ رہے ہیں تو اس کے لیے پارلیمنٹ سے آرمی ایکٹ میں ترامیم کا حالیہ فیصلہ نا گزیر ہے تاکہ ایک عرصے سے لٹکتے مسئلے کا خاتمہ ہو۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مسلم لیگ ن نے پھر پہلے آرمی ایکٹ میں ترامیم کرنے کی مخالفت کیوں کی تھی تو اس حوالے سے ابھی ن لیگی قیادت کا ردِ عمل یا موقف آنا باقی ہے اور جہاں تک اس ضمن میں میری ذاتی رائے کا تعلق ہے تو آرمی ایکٹ میں ترامیم بہت پہلے ہو جانی چاہیے تھیں تاکہ ملک کے اس اہم ادارے سے متعلق تمام ابہام کا خاتمہ ہو جاتا اور آج یہ نوبت ہی پیش نہ آتی۔ یہ بھی یاد رہے کہ حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترامیم کے لیے ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے مدد مانگی ہے، جبکہ سپریم کورٹ نے بھی اس حوالے سے پارلیمنٹ کو مذکورہ ترامیم کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ اب اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی سینہ تان کر اس آرمی ایکٹ میں ترامیم کی مخالفت میں ڈنڈا اٹھا کر کھڑی ہو جاتیں ہیں تو سب سے پہلے یہی پراپیگنڈہ کیا جانا تھا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی فوج کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہی ہیں اور سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کرنے کی بھی مرتکب ہو رہی ہیں۔

قصہ مختصر کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت کا مجوزہ فیصلہ قابل تحسین اور دور اندیشی کا حامل ہے اور ان کے اس طرزِ عمل سے پارلیمنٹ کی اہمیت اجاگر ہوئی ہے۔ پٹواریوں کی خدمت میں عرض کیے دیتا ہوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ نواز شریف کے ماضی کے تمام فیصلے بعد میں درست ثابت ہوئے ہیں، آرمی ایکٹ میں حمایت کا فیصلہ بھی یقینا دور اندیشی اور حکمت کا حامل ہو گا۔

آخر میں اتنی گزارش کیے دیتا ہوں کہ سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں۔ عوام میں جڑیں رکھنے والے سیاسی لیڈروں، کٹھ پتلیوں اور سرکاری ملازمین کی سوچوں اور ویژن میں بہت فرق ہوتا ہے۔ آگے آگے دیکھتے جائیے کہ ہوتا ہے کیا کیا۔