فنانس بل کی منظوری میں تاخیر سے ڈالر 200 روپے تک پہنچنے کا خدشہ، مجبوری میں شرائط ماننا پڑیں گی

فنانس بل کی منظوری میں تاخیر سے ڈالر 200 روپے تک پہنچنے کا خدشہ، مجبوری میں شرائط ماننا پڑیں گی
خرم حسین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ فنانس بل کو تسلیم کرنے میں دیر کی گئی تو ڈالر کا ریٹ 200 روپے کی حد کو چھو سکتا ہے۔ ایسا ہوا تو سبھی جاگ جائیں گے۔ مجبوری میں بالاخر آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔

پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملک کی معاشی صورتحال اور فنانس بل کیلئے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فنانس بل اگر پاس نہیں ہوتا تو اس کا اثر ایکس چینج ریٹ پر پڑے گا۔ مارکیٹ میں ڈالر خریدنے کا جو رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے وہ اور اوپر جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ فنانشل مارکیٹ میں اب ہر کسی کی نظریں 12 جنوری پر ہیں۔ لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی ڈیڈ لائن پر عمل ہوگا یا نہیں؟ دوسری جانب پارلیمنٹ میں بل پیش ہونے کے بعد یہ خبریں باہر آ رہی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اس بل سے خوش نہیں ہیں۔

اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے خرم حسین نے کہا کہ شوکت ترین نے حالیہ انٹرویو میں جو بات کی اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا کیساتھ ہمارے تعلقات آنے والے دنوں میں بھی بہتر نہیں ہونگے۔ پاکستان کے معاشی حالات بہت نازک پوزیشن پر آ چکے ہیں۔ فنانشل مارکیٹس اس پر ضرور ردعمل دیں گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پر حالیہ سختی صرف اس لئے نہیں کی جا رہی کہ ہم امریکا کی گڈ بکس میں نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف کیساتھ کی گئی شرائط پر عملدرآمد نہ کرنا بھی اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ مارچ 2021ء میں جب حفیظ شیخ مذاکرات کیلئے گئے تھے تو اس وقت یہی کچھ طے کیا گیا تھا۔ جس پر آج مجبوراً عملدرآمد کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔

خرم حسین نے بتایا کہ اس وقت ان تمام شرائط کو کابینہ سے منظور کروانے کے بعد آئی ایم ایف کو بتایا گیا تھا کہ ہم نے انھیں پورا کر لیا ہے۔ اس کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کو پیسے دیدیے لیکن بعد ازاں پاکستانی حکام اپنی بات سے مکر گئے کہ ہم کنڈیشنز پر دوبارہ بات کرنا چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ شوکت ترین نے عوامی سطح پر آ کر یہ بات تسلیم کی کہ ہم نے سٹیٹ بینک کے حوالے سے بل کو ہم نے پڑھے بغیر پاس کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ آپ نے پہلے اپنی شرائط پوری کریں اس کے بعد ہی پیسے ملیں گے۔ اب یہ پھنس چکے ہیں، انھیں یہ بل پڑھنا پڑ رہا ہے اور احساس ہو رہا ہے کہ اس میں تو وہ باتیں لکھی ہیں جن پر غور کیا ہوتا تو شاید انھیں قبول نہ کرتے۔