انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے پر پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات یقینی بنائے۔ جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا، بات ختم۔
انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے آئی جی، چیف سیکریٹری اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 8 جنوری تک ملتوی کردی۔
پی ٹی آئی وکلا نے آج اس حوالے سے اضافی دستاویزات بھی سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھیں جن کے ذریعے پی ٹی آئی نے اپنے 668 رہنماؤں کے کاغذات مسترد ہونے کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا گیا۔ دستاویزات کے ذریعے بتایا گیا کہ پی ٹی آئی کے 2 ہزار کے قریب حمایت یافتہ اور سیکنڈ فیز کے رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے جبکہ کاغذات نامزدگی چھینے جانے کے 56 واقعات پیش آئے۔
دستاویزات میں بتایا کہ پی ٹی آئی کے تجویز کنندگان اور تائید کنندگان کی گرفتاریاں کی گئی، پی ٹی آئی ویڈیو ثبوت بھی سپریم کورٹ میں دوران سماعت پیش کرے گی۔ 26 دسمبر 2023 کو پی ٹی آئی نے لیول پلیئنگ فیلڈ کے احکامات پرعملدرآمد نہ ہونے پر سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے یکم جنوری کو درخواست سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔
سماعت کے آغاز میں وکیل پی ٹی آئی لطیف کھوسہ روسٹرم پر آگئے اور پٹیشن عدالت میں پڑھ کر سنائی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شعیب شاہین کہاں ہیں؟ اور کہا کہ شعیب شاہین آپ روسٹرم پر آجائیں یہ آپ کی درخواست تھی۔
دوران سماعت لطیف کھوسہ کے ساتھ ”سردار“ ہونے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرداری نظام ختم ہوچکا ہے یہ سردار نواب عدالت میں نہیں چلے گا۔
اس کے بعد لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ لیول پلیئنگ فلیڈ صحت مندانہ مقابلے کیلئے ضروری ہے۔
جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ توہین عدالت کا کیس ہے یہ کوئی نئی پیٹیشن نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے جو توہین کی آپ کے مطابق وہ بتائیں، الیکشن کمیشن نے آپ کو آرڈر کیا دیا؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں الیکشن کمیشن نے کچھ آرڈر نہیں دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے اتنے لوگوں کو توہین عدالت کیس میں فریق بنایا۔ آپ بتائیں کس نے کیا توہین کی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں بتائیں آپ ہم سے چاہتے کیا ہیں؟ اب آپ تقریر نہ شروع کر دیجیے گا، آئینی اور قانونی بات بتائیں ہر کوئی یہاں آکر سیاسی بیان شروع کردیتا ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئی جی اور چیف سیکریٹریز کا الیکشن کمیشن سے کیا تعلق ہے۔
جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ثبوت کیا ہیں ہمیں کچھ دکھائیں۔
جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میں نے ساری تفصیل درخواست میں لگائی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں آپ صرف الیکشن کمیشن کو فریق بنا سکتے تھے۔ آئی جی اور چیف سیکریٹریز کو نوٹس بھیجا تو وہ کہیں گے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ انفرادی طور پر لوگوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں تو الگ درخواست دائر کریں۔ کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں تو اپیل دائرکریں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں اپیل کرنے کیلئے آراو آرڈرز کی نقل تک نہیں مل رہی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آپ کے کتنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے۔ آپ نے لکھا سارا ڈیٹا سوشل میڈیا سے لیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا، بات ختم۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ تین دن تک آرڈر کی کاپی نہیں ملی، اپیل کہاں کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے لوگوں کے نام کی جگہ میجر فیملی لکھا ہوا ہے۔
جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ میجر طاہر صادق کا ذکر ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں ہم الیکشن کمیشن کا کام کریں۔
لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہمارے امیدواروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی جس پر چیف جسٹس نے پوچھا ثبوت کیا ہیں ہمیں کچھ دکھائیں۔ لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ساری تفصیل درخواست میں لگائی ہے۔