چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے لیول پلیئنگ فیلڈ کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم کورٹ ریٹرننگ افسران کو یہ نہیں کہہ سکتی کہ کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد نہ کریں۔ کیا آپ چاہتے ہیں ہم یہ کہہ دیں تحریک انصاف کے امیدواروں کے 100 فیصد کاغذات نامزدگی منظور کریں۔ لگتا ہے آپ انتخابات کا التواء چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تحریک انصاف کی لیول پلیئنگ فیلڈ کیس پر سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔ پی ٹی آئی وکلا ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ، ایڈووکیٹ شعیب شاہین اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب بھی روسٹرم پر موجود تھے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن اور چیف سیکریٹری پنجاب کی رپورٹس پر پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے ہدایت دی کہ الیکشن کمیشن اور چیف سیکریٹری پنجاب چاہیں تو جواب جمع کرا سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کیا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کے لوگوں کے 1195 کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ چیف جسٹس نے وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ چیف سیکریٹری پنجاب کا جواب آپ نے دیکھا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں رپورٹ میں کیا غلط ہے ؟ رپورٹ پر اعتراضات ہیں تو تحریری طور پر جمع کروائیں وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ جس وجہ سے رپورٹ مانگی گئی اسکا ایک بھی جواب نہیں دیا گیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہم نے پنجاب سے رپورٹ مانگی تھی۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ رپورٹ جمع کروا دی گئی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک رپورٹ الیکشن کمیشن اور دوسری چیف سیکریٹری پنجاب نے جمع کرائی ہے۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے مکالمہ کیا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کے خط پر آپ کو نوٹس جاری کیا تھا۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہم الیکشن کمیشن کے ادارے کو ختم کر دیں اور ان کا کام ہم کرنا شروع کر دیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہمارے پاس دفعہ 144 اور ایم پی او تھری کیخلاف درخواست نہیں آئی جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ جمعرات کو سپریم کورٹ میں فائل کی گئی تھی۔ جس پر سپریم کورٹ نےشعیب شاہین سے کہا کہ اپنے پٹیشنر سے پوچھ کر بتا دیں کہ کل اگر وہ موجود ہیں تو ہم کل کیلئے درخواست لگا دیتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ان رپورٹس کو جھٹلا رہے ہیں تو جواب میں تحریری طور پر کچھ لانا ہو گا، کھوسہ صاحب! آپ یہاں کھڑے ہو کر رپورٹ کو مسترد نہیں کر سکتے۔ اگر الیکشن کمیشن نے غلط بیانی کی ہے تو آپ تحریری جواب جمع کروائیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کے کسی فرنٹ لائن امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی منظور نہیں ہوئے۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ اپنے جواب میں خود کہہ رہے ہیں کہ ٹریبونلز نے آپ کو ریلیف دیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کیا یہ چاہتی ہے کہ 100 فیصد کاغذاتِ نامزدگی منظور ہو جائیں؟ جو چاہتے ہیں وہ بتا دیں۔ یہ قانون کی عدالت ہے۔ زبانی تقریر سے نہیں چل سکتی۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمے میں کہا کہ مجھے لگ رہا ہے آپ انتخابات کا التواء چاہتے ہیں، ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ انتخابات ہوں۔
پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن پنجاب کا خط دیکھیں۔ جسٹس میاں محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کا اپنا الیکشن سیل ہے تو آپ کے پاس اعداد و شمار کیوں نہیں؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ کیا حکم چاہتے ہیں؟ عدالت کو بتائیں تا کہ کر دیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے استدعا کی کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ دی جائے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی کو الیکشن چاہئیں؟ جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا 100 فیصد الیکشن چاہئیں۔ چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن کاکام انتخابات کروانا ہے۔ یہ آپ کے بنائے ہوئے ادارے ہی ہیں۔ پارلیمان نے ہی بنائے ہیں یہ ادارے، ان اداروں کی قدرکریں۔ اگر ان کی جانب سے بیان کیے گئے حقائق غلط ہیں تو تردید کریں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ کے الزامات پر تردیدی جواب آجاتا ہے توآپ کہتے ہیں یہ درست نہیں۔ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا دفعہ 144 لگا کر ہمارے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم حکومت نہیں سپریم کورٹ ہیں، ہم کسی کی کمپئین نہیں چلا رہے، دفعہ 144 اور ایم پی او سب کیلئے ہوگا صرف پی ٹی آئی کیلئے نہیں۔ ہمارے سامنے نہ دفعہ 144 نہ ہی ایم پی او کو چیلنج کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا باقی کوئی سیاسی جماعت عوام میں جانا ہی نہیں چاہتی۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اگر آپ کو پاکستان کے کسی ادارے پر اعتبار نہیں تو ہم کیا کریں۔ یہ کوئی سیاسی فورم نہیں، عدالت کے سامنے دکھڑے نہ سنائیں۔ بہت سے سیاسی فورم ہیں انہیں استعمال کریں۔ سب سے زیادہ درخواستیں پی ٹی آئی کی آ رہی ہیں اور سنی بھی جا رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن مقدمات بھگتے یا انتخابات کروائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے لطیف کھوسہ سے پوچھا آپ کس جماعت کے امیدوار ہیں؟لطیف کھوسہ نے بتایا کہ میں پی ٹی آئی کا امیدوار ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کیا آپ نے پیپلزپارٹی چھوڑ دی ہے؟ لطیف کھوسہ بولے جی پیپلزپارٹی چھوڑے کافی دیر ہو گئی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لطیف کھوسہ کے باربار بولنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ ہمیں سوال ہی نہیں کرنے دے رہے۔ ہمیں پوچھنے سے روک دیتے ہیں۔ اس طرح کریں عدالتی حکم بھی آپ خود ہی لکھوا لیں۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے سے متعلق کیس 15 جنوری تک ملتوی کر دیا۔ عدالت نے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان دینے سے متعلق کیس کی سماعت بھی 10 جنوری تک ملتوی کر دی۔