اقلیتی برادری کی مخصوص نشستوں پر خواتین کی نامزدگی کا تصور بھی نہیں

اقلیتی برادری کو ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا جداگانہ حق دیا جائے، اس کے بعد ان کی سیٹوں میں اضافہ کیا جائے اور اقلیتی خواتین کے لئے نشستیں مخصوص کی جائیں تاکہ اقلیتی خواتین بھی اپنی آواز بہتر طریقے سے اسمبلی میں پہنچا سکیں۔

اقلیتی برادری کی مخصوص نشستوں پر خواتین کی نامزدگی کا تصور بھی نہیں

ملتان کی رہائشی سماجی و سیاسی کارکن شکنتلا دیوی اقلیتی برادری کی خواتین کے سیاسی و سماجی حقوق کے لئے سرگرم رہی ہیں اور ملتان کے سیاسی و سماجی فورمز پر ہمیشہ اقلیتی برادری کی خواتین کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی نظر آتی ہیں لیکن وہ نہ تو کبھی کسی سیاسی پلیٹ فارم کا باقاعدہ حصہ بنی اور نہ ہی کبھی کسی ایوان تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہیں جبکہ ملتان میں ان کا ساتھ دینے کے لئے دیگر اقلیتی برادری کی خواتین بھی نظر نہیں آتی ہیں۔ ملتان میں بلدیاتی سیاست ہو یا قومی و صوبائی سیاست میں اقلیتی برادری کے لئے مخصوص نشستوں پر نامزدگی کا معاملہ ہو صرف اقلیتی برادری کے مردوں کو ہی ان نشستوں پر منتخب کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کبھی کسی اقلیتی برادری کی خاتون کو نامزدگی کے لئے بطور امیدوار گردانا ہی نہیں گیا ہے۔

شکنتلا دیوی کا کہنا ہے کہ ملک میں ہونے والی مردم شماری میں اقلیتی برادری کا درست اندراج نہیں کیا جاتا کیونکہ بیشتر اقلیتی برادری کے افراد کم تعلیم یافتہ ہیں اور روزگار کے حصول میں مصروف ہونے کے باعث ان کے لئے مردم شماری کرنے والے بار بار چکر نہیں لگا سکتے، تاہم اقلیتی آبادی میں سال 2000 کے بعد اضافے کے مطابق سال 2017 تک ہونے والی مردم شماری میں درست اندراج نہیں کیا گیا۔

اس طرح ناقص پالیسیوں اور حکمران جماعتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے گذشتہ 38 برسوں سے قانون ساز اسمبلیوں میں مختص اقلیتی مخصوص نشستوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اقلیتی خواتین کے لئے نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔ اسی وجہ سے اقلیتی خواتین اسمبلیوں اور قانون سازی میں جگہ نہیں پا سکی ہیں۔ اگر اقلیتی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ اقلیتی خواتین کے لئے بھی نشستیں مخصوص کی جائیں تو اقلیتی خواتین کے بھی زیادہ تعداد میں اسمبلیوں میں آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اسمبلیوں میں اقلیتوں کیلئے مختص 10 فیصد کوٹہ 15 فیصد کرتے ہوئے 5 فیصد نشستوں کو اقلیتی خواتین کیلئے مخصوص کیا جائے۔ شکنتلا دیوی نے کہا کہ جب اقلیتی برادری کے مرد ہی پدرشاہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف خود کو نمائندگی کے لئے پیش کریں گے تو اقلیتی خواتین سیاست میں کیسے اپنا حق نمائندگی حاصل کریں گی۔ اقلیتی خواتین نعرے لگانے اور انتخابی انتظامات کرنے کی حد تو ٹھیک ہیں لیکن انہیں منتخب ہو کر اپنے مسائل حل کرانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس لئے سال 2000 سے پہلے ووٹ کے ذریعے اقلیتی نمائندگی کا طریقہ کار رائج ہونا چاہئیے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 34 میں کہا گیا ہے کہ قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی بھرپور شمولیت یقینی بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ پاکستان میں مقامی اقتدار و اختیار کے باہمی تعلقات مل کر ملک کا سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی ماحول بناتے ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ یہی تعلقات ان تمام شعبوں میں خواتین کی بھرپور شمولیت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ سیاست ان شعبوں میں سے ایک ہے جہاں صنفی عدم مساوات اب عالمی توجہ حاصل کر چکی ہے۔ سیاسی امتیاز اور ثقافتی بندشوں کا ماحول خواتین کو جمہوری حکومتوں میں بھی برابر شمولیت سے محروم کرتا ہے۔ ایسے میں اقلیتی خواتین جو ملک میں اپنے بنیادی حقوق سے ہی محروم چلی آ رہی ہیں وہ ملک کے قیام کے 53 برس بعد کم تعداد میں سہی، لیکن سیاسی طور پر متحرک ہونے کے باوجود حکومت میں شمولیت کا خواب بھی نہیں دیکھ سکیں۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے قومی اسمبلی میں 10 جبکہ آرٹیکل 106 کے تحت صوبوں میں 24 سیٹیں مختص ہیں جن میں صوبہ سندھ کی 9، پنجاب کی 8، بلوچستان کی 3 جبکہ خیبر پختونخوا کی 4 نشستیں شامل ہیں۔ سال 2000 میں ختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے منصوبے کے تحت پاکستان کے سیاسی منظرنامے کی ازسرِنو تشکیل ہوئی۔ لوکل گورنمنٹ آرڈر یا مقامی حکومتوں کی سیاست کی اس تشکیلِ نو کی بدولت خواتین کے لئے 33 فیصد نشستیں مخصوص کر دی گئیں۔ اس قانون کے سیکشن 74 اور ذیلی سیکشن(4)(4)میں جنرل کونسلر،خواتین، مزدور اور کارکنوں کے ساتھ مذہبی اقلیتوں کے لئے بھی مخصوص نشستیں رکھی گئیں۔ تاہم افسوس ناک امر یہ رہا کہ اقلیتی خواتین کے لئے نشستوں کو مخصوص نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں پر اقلیتی مردوں کا قبضہ رہا ہے۔

سابق اقلیتی رکن قومی اسمبلی نوید عامر جیوا کا کہنا ہے کہ سال 2000 سے قبل اقلیتی نمائندوں کا ووٹ کے ذریعے انتخاب ایک پیچیدہ عمل تھا۔ اقلیتی آبادی پورے ملک میں بٹی ہونے کی وجہ سے نمائندوں کے چناؤ، ووٹ کا حصول اور نمائندگی کے لئے ایک اقلیت کا انتخاب مشکل مرحلہ تھا جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستوں پر اقلیتی افراد کی نامزدگی کا حق دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے ساتھ کام کرنے والے اقلیتی متحرک اور نمائندگی کے لئے اقلیتی برادری کی سپورٹ رکھنے والے افراد کو ہی مخصوص نشستوں پر منتخب کیا جاتا ہے۔ اس میں خواتین کے لئے تخصیص نہیں ہے جیسا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ سے اقلیتی خواتین کو سینیٹ تک میں منتخب کیا جس میں کیشو بائی سال 2018 اور کرشنا کماری سال 2021 میں منتخب ہوئیں۔

انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی نے ہی اٹھارویں آئینی ترمیمی ایکٹ سال 2010 میں غیر مسلموں کی ایوانِ بالا میں نمائندگی کے لیے شق شامل کی، جس کے تحت ہر صوبے سے اقلیتی ارکان کی نمائندگی کے لیے ایک مخصوص نشست کا اضافہ کیا گیا تھا۔ یہ پہلی بار تھا کہ ایوانِ بالا (سینیٹ) میں اقلیتوں کی نمائندگی کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئیں کیونکہ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی نمائندگی کے لیے 10 مخصوص نشستیں موجود تھیں تاہم سینیٹ میں ان کی نمائندگی نہیں تھی جس میں اقلیتی خواتین کے لئے نشستیں مخصوص کی جا سکتی ہیں۔

محکمہ شماریات پاکستان کی جانب سے سال 2018 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں مذہبی اقلیتوں کی کل آبادی 73 لاکھ 20 ہزار شمار کی گئی ہے، جن میں مسیحی برادری 26 لاکھ 40 ہزار، ہندو 3.6 ملین، احمدی 0.19 ملین، شیڈول کاسٹ 0.85 ملین اور دیگر مذاہب کے لوگ 0.4 ملین ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جون 2022 کی ووٹر لسٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت مذہبی اقلیتوں کے کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 ہے جس میں مردوں کے رجسٹرڈ ووٹ 21 لاکھ 52 ہزار 143 ہیں جبکہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ 18 لاکھ 41 ہزار 193 ہیں۔

ملتان کے ریجنل کوآرڈینیٹر انسانی حقوق کمیشن فار پاکستان فیصل محمود تنگوانی اقلیتی برادری کے مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ آبادی اور مخصوص نشستوں میں اضافے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اقلیتی برادری کی تعداد کم نہیں ہو رہی بلکہ ان کا تناسب کم ہو رہا ہے کیونکہ یہاں مسلمانوں کی تعداد 95 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس وجہ سے اقلیتی برادری کے مقابلے میں ان کی آبادی اور تناسب زیادہ بڑھ رہا ہے۔ فیصل محمود سمجھتے ہیں کہ اقلیتی برادری کا بڑا مسئلہ مخصوص نشستوں کی کمی نہیں بلکہ موجود نشستوں کا طریقہ انتخاب ہے۔

اقلیتوں کے لئے قانون سازی پر عبور رکھنے والے اللہ رکھا ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ 1997 تک اقلیتی برادری ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے قانون ساز اسمبلیوں میں بھیجتی تھی۔ ووٹ کے ذریعے آنے والے نمائندے ان کے سامنے جوابدہ تھے لیکن یہ عمل 2002 میں سابق صدر پرویز مشرف نے ختم کیا، جس میں اقلیتوں کے نمائندوں کا مطالبہ بھی شامل تھا جبکہ عام اقلیتی افراد اس مطالبے کے شعور سے بھی محروم ہیں۔ اب سیاسی جماعتیں اقلیتی برادری سے من پسند افراد چن کر اسمبلیوں میں لے جاتے ہیں جس سے اقلیتی برادری کو اصل نمائندگی نہیں مل رہی۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ طریقہ کار ہو گا اگر ان کی سیٹوں میں اضافہ بھی کیا گیا تو ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے اقلیتی برادری کو ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا جداگانہ حق دیا جائے، اس کے بعد ان کی سیٹوں میں اضافہ کیا جائے اور اقلیتی خواتین کے لئے نشستیں مخصوص کی جائیں تاکہ اقلیتی خواتین بھی اپنی آواز بہتر طریقے سے اسمبلی میں پہنچا سکیں۔

ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر ملتان غلام عباس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ قانون ساز اسمبلیوں کی سیٹوں میں اضافہ آبادی کے تناسب سے کیا جاتا ہے۔ اگر اقلیتی برادری کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے تو ان کی سیٹوں میں اضافہ قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے جس میں الیکشن کمیشن کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

پاکستان میں اقلیتی خواتین کی حالت زار کے عنوان سے متعلق جینیفر جیگ جیوان اور پیٹر جیکب کی سال 2012 میں جاری سٹڈی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی سیاسی فیصلہ سازی میں شرکت کے حوالے سے سیاسی جماعتوں میں نمائندگی صرف 5.5 فیصد ہے اور ان میں سے بھی صرف 1.5 فیصد فعال دکھائی دیتی ہیں اور 0.4 فیصد اقلیتی ونگ کے عہدوں پر فائز ہیں۔ اس طرح اقلیتی خواتین کی کل آبادی میں سے 69 فیصد نے سیاسی عمل میں شمولیت کے بارے سوچا بھی نہیں ہے جبکہ صرف 19 فیصد ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کرتی ہیں۔