سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) اعجاز احمد چوہدری نے کہا ہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فیصلے کو 1970 میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے فیصلے کی طرح متنازع سمجھتے ہوئے یاد رکھا جائے گا۔
وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے 2015 میں ریٹائر ہونے والے جسٹس اعجاز احمد نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر بھی بات کی اور اسے ایک ایسا واقعہ قرار دیا کہ کس طرح ایجنسیز ججز کی تعیناتی میں مداخلت کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2014 میں اسلام آباد کے دھرنے میں پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے دعویٰ کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے ذریعے نواز شریف کو اقتدار سے باہر کردیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سن کر سپریم کورٹ کے ججز حیران رہ گئے کیوں کہ اس وقت جسٹس ناصر الملک چیف جسٹس پاکستان تھے اور وہ صحیح آدمی تھے تاہم بعد میں یہ سپریم کورٹ ہی تھی جس نے بالآخر نواز شریف کو 2018 میں پاناما پیپرز کیس میں برطرف کردیا۔
کیا پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ درست تھا؟ اس سوال کے جواب میں سابق جج نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بہت سے ایسے فیصلے ہیں جنہیں عوام قبول نہیں کرتے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ درست نہیں مثلاً ذوالفقار علی بھٹو کا کیس۔ اس لیے یہ اسی طرح کا کیس ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ریفرنس تو ختم کر دیا لیکن اپنی طرف سے انہوں نے ان کی اہلیہ کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں پیش ہونے کا کہہ دیا ہے اور اس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم جوڈیشل کونسل اور چیف جسٹس اس معاملے کو دیکھیں گے۔
ججز کی تعیناتی کے معاملے میں کس حد تک مداخلت ہوتی ہے کہ جواب میں انہوں نے ایک واقعہ دہرایا کہ جب وہ کچھ ججز تعینات کررہے تھے تو انٹر سروسز انٹیلیجنس کے ایک جنرل کی ان کے پاس ٹیلی فون کال آئی۔ انہوں نے بتایا کہ کال پر جنرل نے مجھ سے کہا کہ کیا آپ جج رکھ رہے ہیں تو میں نے کہا ہاں، جس پر انہوں نے مجھ سے کسی کو جج بنانے کو کہا۔ میں نے انہیں جواب میں ایک لیفٹیننٹ جنرل بنانے کو کہا جس پر انہوں نے مجھے جواب دیا کہ ایسا تو نہیں ہوسکتا تو میں نے بھی کہا یہ بھی نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے دور میں کوئی مداخلت نہیں تھی اور جب کسی نے انہیں یہ موقع دیا تو دوسروں نے مداخلت کی۔