چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فل کورٹ ریفرنس میں شرکت سے انکار سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ نے خط لکھا ہے جس میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس سے متعلق نہایت سخت زبان استعمال کی گئی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ میرا خط ریفرنس کے ریکارڈ پر رکھا جائے۔
رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام لکھے گئے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی جس کے اثرات تادیر عدلیہ پر موجود رہیں گے، چیف جسٹس کی نظر میں عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی قدر نہیں اور انہوں نے انتظامیہ سے کہا کہ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔
خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ چیف جسٹس کا کردار لوگوں کے حقوق کا تحفط ہوتا ہے اور ایک چیف جسٹس نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہوتا ہے لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ پر بیرونی دباؤ کو نظر انداز کیا۔ ایک چیف جسٹس کا کام عدلیہ میں مداخلت کو روکنا ہوتا ہے مگر موجودہ چیف جسٹس نے بجائے مداخلت کو روکنے کے، عدلیہ کے دروازے مزید کھول دیے اور مداخلت کرنے والوں کو مزید جگہ دے دی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت پر شترمرغ کی طرح سر ریت میں چھپائے رکھا۔
خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدالتی رواداری و ہم آہنگی کے لیے لازمی احترام قائم کرنے میں ناکام رہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئینی حدود سے تجاوز کیا تو جنوری 2019 میں ان کے ریفرنس میں شرکت سے بھی انکار کیا تھا اور ثاقب نثار کے ریفرنس میں عدم شرکت کی وجوہات بھی خط کے ذریعے بتائی تھیں۔