Get Alerts

مسز سرینا عیسیٰ نے بیرون ملک جائیدادوں کی قیمت سے زائد رقم اپنے بینک اکاؤنٹ سے بھیجی: جسٹس یحییٰ آفریدی

مسز سرینا عیسیٰ نے بیرون ملک جائیدادوں کی قیمت سے زائد رقم اپنے بینک اکاؤنٹ سے بھیجی: جسٹس یحییٰ آفریدی
ساتھی صحافی حسنات ملک کو لے کر 11 بج کر 10 منٹ پر سپریم کورٹ پہنچا تو وہ فوٹو سٹیٹ والے کے پاس چلے گئے جب کہ میں سیدھا کورٹ روم نمبر ون میں چلا آیا۔ کمرہ عدالت میں ساتھی صحافیوں حسن ایوب اور ذوالقرنین سے کل کے کالعدم TLP اور پولیس تصادم پر گپ شپ چلتی رہی۔ 11 بج کر 32 منٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ مسز سرینا عیسیٰ اور بیٹی سحر عیسیٰ کے ساتھ کمرہ عدالت میں آ کر درخواستگزار وکلا کے لئے مخصوص نشستوں پر بیٹھ گئے۔ چند منٹ بعد 11 بج کر 36 منٹ پر کورٹ آ گئی کی آواز لگی اور دس رکنی معزز بینچ آ کر اپنی نشستوں پر بیٹھ گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وکلا کے لئے مخصوص روسٹرم پر آ کر کھڑے ہو گئے اور دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 16 دسمبر 2019 سے لے کر آج تک میں نے یا میرے وکلا نے کوئی بھی التوا نہیں مانگا جب کہ جتنی بھی دفعہ کیس کی سماعت مؤخر ہوئی وہ دوسری طرف یعنی حکومت کی طرف سے ہوئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کیونکہ یہ سماعت چھ ماہ کے عرصے تک مؤخر رہی ہے تو بہت سی باتیں لوگوں کے ذہن سے محو ہو گئی ہوں گی اس لئے میں کچھ اہم باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس کے بعد وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کو نشانے پر لیتے ہوئے کہا کہ فروغ نسیم نے میری بیوی کی جائیدادوں کا مجھ سے تعلق جوڑنے کے لئے انہتائی افسوسناک اور شرمناک دلیل دی اور کہا کہ پرانے وقتوں میں بیوی شوہر کے مرنے پر ستی ہو جاتی تھی اور اس کے ساتھ ہی جل کر اپنی زندگی ختم کر لیتی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اس موقع پر آواز بلند ہو گئی اور انہوں نے کہا کہ ایک وزیر قانون پرانی فرسودہ قبائلی اور دور جاہلیت کی مثالوں کو اپنائے تو اس کو برطرف کر دینا چاہیے۔ اس موقع پر دس رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ٹوکا کہ آپ براہ مہربانی الزامات مت لگائیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فوری جواب دیا میں الزام نہیں لگا رہا بلکہ عدالت کے ریکارڈ میں موجود مسٹر فروغ نسیم کے دلائل میں سے ان کی یہ بات بتا رہا ہوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ کو بتایا کہ ہمیں ریکارڈ دیکھنا پڑے گا اور اس میں وقت لگے گا اس لئے آپ صرف اپنے کیس کے نکات تک محدود رہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اس لئے ہی تو میں کہتا ہوں کہ صبح 9 بجے سے سماعت رکھیں تاکہ معزز بینچ کے پاس زیادہ وقت ہو اور میں بینچ کی بھرپور معاونت کر سکوں ہر نکتے پر۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اہم جملہ کہا کہ دو سال سے تلوار میری گردن پر لٹک رہی ہے، اس لئے مجھے پورا سنا جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیر قانون فروغ نسیم پر مزید بات کرنے پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے میرے انداز میں دلائل آگے بڑھانے دیں۔

اس دوران جسٹس مقبول باقر نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہدایت کی کہ وہ کیس کے قانون نکات تک خود کو محدود رکھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ میری اہلیہ نے معلوم نہیں سلائی مشین سے چھ لاکھ پاؤنڈ جمع کر لیے ہوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس موقع پر جسٹس قاضی محمد امین احمد کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ آپ نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ایسی تضحیک آمیز مثالیں دینے سے ٹوکا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے معزز بینچ کو بتایا کہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے آپشن دیا کہ آج مسز سرینا عیسیٰ آکر اپنی جائیدادوں کا جواب دے دیں تو بات ختم ہو جائے گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اس بات پر میری اہلیہ نے مجھے کہا کہ وہ بینچ کو اپنی جائیدادوں کا جواب دینا چاہتی ہیں اور میں بینچ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری اہلیہ کو سنا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج اپنی بات ختم کرتے ہوئے بینچ سے استدعا کی کہ وہ مسز سرینا عیسیٰ کو پہلے سن لیں اور اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے دلائل دیں گے۔

عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی استدعا قبول کر لی تو مسز سرینا عیسیٰ اپنی بیٹی سحر عیسیٰ کے ساتھ دلائل دینے کے لئے روسٹرم پر آ گئیں۔ مسز سرینا عیسیٰ نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بیرسٹر فروغ نسیم نے 16 جون کو کہا کہ میں آ کر اپنی جائیدادوں کا جواب دوں تو کیس میں فریق نہ ہونے کے باوجود میں نے بینچ کے سامنے وڈیو لنک پر پیش ہو کر رضاکارانہ طور پر اپنی جائیدادوں اور آمدن کے دستاویزات پیش کیے اور جواب دیے۔ مسز سرینا عیسیٰ نے جسٹس عمر عطا بندیال کو یاد دہانی کروائی کہ جواب کے اختتام پر آپ نے ریمارکس دیے کہ آپ میرے جواب سے مطمئن ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کیونکہ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ بھی تھے تو وہ سمجھیں کہ جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ ریمارکس پورے بینچ کی طرف سے دیے ہیں اور بینچ کے کسی رکن نے جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس سے اختلاف بھی نہیں کیا تھا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بینچ کو تمام جوابات دینے کے لئے دو ملکوں پاکستان اور برطانیہ سے دستاویزات جمع کیں۔

مسز سرینا عیسیٰ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاکستان میں صوبہ سندھ اور بلوچستان سے تمام دستاویزات جمع کیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ سب ریکارڈ حاصل کرنا ایک مشکل کام تھا لیکن میں نے یہ سب جمع کروایا۔ مسز سرینا عیسیٰ نے اس موقع پر انتہائی اہم بات کی کہ میری تمام دستاویزات میں کہیں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ذکر نہیں اور نہ ہی ان کا کوئی تعلق ثابت ہوتا ہے لیکن بینچ نے پھر بھی مجھے FBR بھیج دیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہوں نے خوشی سے اپنی جائیدادوں پر سوالات کے جواب دیے لیکن انہیں افسوس ہوا کہ وہ کیس کے 15 فریقوں میں شامل نہیں تھیں لیکن پھر بھی ان کا نام عوامی بحث کا موضوع بن گیا اور ان کی کردار کشی کی گئی۔

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے بہت اہم آبزرویشن دی کہ ہم آپ کی بات سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کس تکلیف سے گزری ہیں کیونکہ آپ اس کیس میں فریق نہیں تھیں لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے بغیر سنے ہمارے فیصلہ کا شکار ہو گئیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ کے شوہر شاید کسی وجہ سے سپریم جوڈیشل کونسل نہیں جانا چاہتے تھے تو وہ ہمارے سامنے کیس لے آئے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کے ان ریمارکس پر کمرہ عدالت میں موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فوراً اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے جسٹس عمر عطا بندیال سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں آپ کی تصحیح کرنا چاہتا ہوں، آپ کہہ رہے ہیں کہ میں سپریم جوڈیشل کونسل نہیں جانا چاہتا تھا تو جناب ریکارڈ کی درستگی کر لیجئے سپریم جوڈیشل کونسل تین ماہ تک میرے خلاف یکطرفہ کارروائی چلاتی، رہی میں نے متعدد بار سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی لیکن مجھے نہیں سنا گیا اور جب میں بالکل مایوس ہو گیا کہ وہاں سے مجھے انصاف نہیں ملے گا تو میں نے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیا۔

مسز سرینا عیسیٰ نے اپنے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور وہ ابھی اس سانحہ سے گزر رہی تھیں کہ FBR نے الزام لگا دیا کہ میں نوٹس وصول نہیں کر رہی حالانکہ جس دن انتقال ہوا اس دن نوٹس بھجوایا گیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہوں نے والد کے انتقال کے صدمے کے دوران FBR کے ہر نوٹس کا خود FBR کے دفتر جاکر جواب دیا۔ مسز سرینا عیسیٰ نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ FBR کے کمشنر ان لینڈ ریونیو نے میرے خلاف حکم جاری کرتے ہوئے نہ تو میری امریکن سکول کی 1982 سے ملنے والی تنخواہ کو آمدن شمار کیا اور نہ ہی میری کراچی میں دو جائیدادوں کی فروخت کی آمدن، زرعی آمدن اور مختلف جائیدادوں سے ملنے والے کرائے کو آمدن شمار کیا اور میرے خلاف آرڈر جاری کر دیا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ FBR کا یہ کمشنر ذوالفقار احمد دراصل میرے خلاف تحقیقات سے ایک سال قبل حکومت کو غیر قانونی طور پر میری ٹیکس دستاویزات تک رسائی حاصل کر کے رائے دے چکا تھا کہ میں نے جائیدادیں چھپائی ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے ذوالفقار احمد کی رائے پر انحصار کرتے ہوئے میرے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا۔

مسز سرینا عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ جو افسر مجھے سنے بغیر میرے خلاف پہلے ہی ایک فیصلہ جاری کر چکا تھا اس کے سامنے ہی مجھے بھیج دیا گیا۔ اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے مسز سرینا عیسیٰ سے وضاحت طلب کی کہ ان کے خلاف آرڈر میں لکھا ہے کہ انہوں نے جائیدادوں کی خریداری پر اپنی پوزیشن تبدیل کی تھی تو کیا ایسا ہوا تھا؟ مسز سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں نے 1982 سے لے کر آج تک اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال اٹھایا کہ مسز سرینا آپ کس آرڈر کی بات کر رہی ہیں جو ذوالفقار احمد نے پاس کیا یا جو رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو جمع کروائی؟ مسز سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہی نہیں آج تک کہ میرے بارے میں کیا رپورٹ جمع کروائی گئی ہے اور میری درخواست کے باوجود چیئرمین FBR نے مجھے رپورٹ دینے سے انکار کر دیا تھا اور اب میں بغیر یہ جانے کے کیا الزامات لگائے گئے ہیں آپ کو جواب دے رہی ہوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے فوری عدالت میں موجود عملے کو ہدایت دی کہ وہ رجسٹرار سپریم کورٹ خواجہ داؤد کے پاس جا کر رپورٹ لائیں اور اس کی کاپی کروا کر مسز سرینا عیسیٰ کو دیں تاکہ وہ تیاری کر کے جواب دے سکیں۔

مسز سرینا عیسیٰ نے دس رکنی بینچ کو ایک اور اہم نکتہ کی نشاندہی کی کہ جب ان کے بارے میں معلومات کے لئے وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے اس وقت کے چیئرمین FBR جہانزیب خان سے رجوع کیا تو انہوں نے معلومات دینے سے انکار کر دیا تھا کہ قانون کے مطابق شہزاد اکبر یہ معلومات طلب کرنے کے مجاز نہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ نے انکشاف کیا کہ اس پر شہزاد اکبر نے چیئرمین FBR کا کریئر افسوسناک انداز میں ختم کروا کر عہدے سے ہٹوا دیا اور ایسا کرنا حکومت کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ FBR نے ان کا ٹیکس ریکارڈ مرزا شہزاد اکبر کو تو دے دیا لیکن جب انہوں نے خود اپنے لئے طلب کیا تو FBR کے کمشنر ذوالفقار احمد نے دینے سے انکار کر دیا۔

اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روسٹرم پر آ کر معزز بینچ کو آگاہ کیا کہ FBR نے ان کی اہلیہ پر جھوٹا الزام لگا دیا اور یہ الزام بھی سپریم کورٹ میں لگایا کہ انہوں نے 2014 میں ٹیکس ریٹرن جمع کروائے تھے جن میں یہ جائیدادیں ظاہر نہیں کی گئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ معزز بینچ نے بھی FBR کے الزام پر بغیر دستاویزات دیکھے شاید یقین بھی کر لیا حالانکہ میری اہلیہ نے 2014 میں کوئی ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروایا تھا کیونکہ وہ پہلے بیرون ملک تھیں اور بعد میں وہ اسلام آباد آ کر میرے ساتھ مقیم ہو گئیں تو کراچی کب گئیں۔ ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کے لئے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ 2013 کے بعد ان کی اہلیہ کی کوئی قابل ٹیکس آمدن تھی ہی نہیں کیونکہ زرعی آمدن پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ نے متعدد بار FBR کے ان لینڈ ریونیو کمشنر سے تقاضا کیا کہ اگر انہوں نے 2014 میں کوئی ٹیکس ریٹرن یا ویلتھ سٹیٹمنٹ جمع کروائی ہے تو دکھائی جائے لیکن وہ دکھانے میں ناکام رہے۔

مسز سرینا عیسیٰ نے دوبارہ اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ FBR حکام نے الزام لگایا کہ انہیں 2015، 17 اور 18 میں نوٹس بھیجے گئے جو جھوٹ ہے۔ انہیں آج تک کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مسٹر ذوالفقار احمد نے میرے اوپر غیر قانونی طور پر قابل ادا رقم کا فیصلہ دے دیا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال پوچھا کہ کیا آپ نے FBR کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہے یا جرمانے کی رقم ادا کر دی ہے؟ مسز سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں نے جرمانہ ادا نہیں کیا اور فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔

مسز سرینا عیسیٰ نے اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے خودمختار ہونے کے باوجود اگر قانون میں تھا کہ میرے شوہر کو میرے اثاثے اپنے ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کرنے تھے تو پھر یہی اصول وزیر اعظم عمران خان پر کیوں لاگو نہیں کیا گیا کہ وہ بھی اپنی تینوں بیویوں کے اثاثے اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کریں؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے مسز سرینا عیسیٰ کو آگاہ کیا کہ صدارتی ریفرنس کا فیصلہ ٹیکس قوانین کی بنیاد پر نہیں بلکہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کی بنیاد پر دیا گیا۔ مسز سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں اپنے شوہر کا مقدمہ نہیں لڑ رہی صرف اپنا جواب دینا چاہتی ہوں تاکہ پاکستان میں سب کو سچ کا معلوم ہو۔ مسز سرینا عیسیٰ نے اپنے مالی معاملات کی شفافیت کا ثبوت دینے کے لئے سوال اٹھایا کہ اس کمرہ عدالت میں کتنے لوگ ہیں جو 1982 سے ٹیکس ریٹرن جمع کروا رہے ہیں؟ لیکن میں ہر سال یہ ٹیکس ریٹرن 1982 سے جمع کروا رہی تھی۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میری بیٹی سحر عیسیٰ میرے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود ہے اور آپ دیکھ سکتے ہیں یہ ابھی بالغ ہے اور جائیدادوں کی خریداری کے وقت بھی بالغ تھی۔ مسز سرینا عیسیٰ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انہوں نے پہلی جائیداد 2003 میں مکمل طور پر اپنے نام پر خریدی جب کہ دیگر دو فلیٹس 2013-14 میں اپنے بچوں کے ساتھ مل کر خریدے جس میں وہ 50 فیصد کی حصہ دار ہیں۔

اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے مسز سرینا عیسیٰ کو ہدایت کی کہ وہ دیگر باتوں کو وقت دینے کی بجائے اپنے خلاف FBR کے فیصلے کے اس حصے کو کیوں نہیں پڑھتیں جس میں FBR نے اعتراف کیا ہے کہ مسز سرینا عیسیٰ نے لندن میں موجود جائیدادوں کی مالیت سے زیادہ رقم  پاکستان میں اپنے فارن کرنسی اکاؤنٹ کے ذریعے برطانیہ میں اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر رکھی ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں نے اس حصے پر بھی ابھی آنا ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے مکالمے میں جسٹس منیب اختر نے مداخلت کرتے ہوئے مسز سرینا عیسیٰ کو ہدایت کی کہ وہ صرف ایک جملہ نہیں پورا پیرا گراف پڑھیں۔

مسز سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ان سے صرف اس ایک نکتے کو ہی پڑھنے کا کہا ہے۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے تھوڑی گرجدار آواز میں سختی سے کہا مسز سرینا عیسیٰ آپ پورا پیرا گراف پڑھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس موقع پر اٹھ کر اپنی اہلیہ کے قریب آ گئے اور انہوں نے جسٹس منیب اختر سے درخواست کی کہ ان کی اہلیہ مسز سرینا عیسیٰ وکیل نہیں ہیں تو ان کو اپنا جواب پورا کرنے کا موقع دیا کریں۔ جسٹس منیب اختر نے برہمی سے جواب دیا کہ عیسیٰ آپ اپنی اہلیہ کو بات کرنے دیں اور اپنی نشست پر جا کر بیٹھیں۔ اپنی نشست کی طرف واپس جاتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی تلخ لہجے میں جواب دیا کہ شکریہ اپنی نشست پر ہی بیٹھ رہا ہوں۔

اب جسٹس منیب اختر نے خود سے ہی FBR کے فیصلے کا پیراگراف پڑھنا شروع کر دیا اور FBR کا کہنا ہے کہ آپ نے بیرون ملک جو رقم بھجوائی وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے ہے۔ جسٹس منیب اختر کا اس موقع پر یہ بھی کہنا تھا کہ معلوم نہیں FBR نے کن دستاویزات پر انحصار کرتے ہوئے یہ فائنڈنگ دی ہے لیکن بہرحال وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ رقم بچوں کی ٹیوشن فیس ہو سکتی ہے۔ جسٹس منیب اختر بینچ کے دائیں طرف تیسرے نمبر پر بیٹھے ہیں تو بینچ کے بائیں طرف چوتھے نمبر پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ایک پیسے بیرون ملک چاہے یونیورسٹی فیس کے لئے بھیجے گئے لیکن بعد میں ذہن بدل کر ان سے جائیدادیں خرید لی گئیں تو اس میں کچھ غیر قانونی عمل نہیں ہوا کیونکہ یہ ان کا ذاتی پیسہ ہے، یہ جیسے مرضی استعمال میں لائیں۔ اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے دستاویزات پر نظر ڈالتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مزید اچھی بات یہ ہے کہ یہ تمام رقوم بینکنگ چینل سے مسز سرینا عیسیٰ نے بھجوائی ہیں اور کوئی حوالہ ہنڈی کے ذریعے نہیں۔ اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے اہم آبزرویشن دی کہ اگر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ پیسے مسز سرینا عیسیٰ کے ہیں اور انہوں نے بینک کے ذریعے پاکستان میں اپنے اکاؤنٹ سے برطانیہ میں بھی اپنے ہی اکاؤنٹ میں منتقل کر کے جائیدادیں خریدی ہیں تو بات ختم۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جی اس نکتے کی حد تک بات ختم لیکن دیگر نکات پر ابھی ہم مسز سرینا عیسیٰ کو سنیں گے۔ اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے مسز سرینا عیسیٰ کو کہا کہ میں آپ کی تعریف کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے شوہر سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے زیادہ اختصار سے دلائل دے رہی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کے ان ریمارکس پر بینچ سمیت پورے کمرہ عدالت میں قہقہ لگا اور پوری سماعت کے دوران آج پہلی دفعہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی کھل کر ہنسے۔ اس کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کل تک کے لئے مؤخر کر دی۔