پاکستان کے نامور تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور (جی سی یو) نے افغانستان میں طالبان کے نافذ کردہ جھنڈے کو تسلیم کر لیا ہے۔
جامعہ کے وائس چانسلر اصغر زیدی نے اپنے ایک ٹویٹ میں دیگر ملکوں کے جھنڈوں کے ساتھ افغانستان کے جھنڈے کے طور پر طالبان کا نافذ کردہ جھنڈا استعمال کیا ہے حالانکہ ابھی تک پاکستانی ریاست نے طالبان کی حکومت اور ان کے جھنڈے کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ نہ ہی دنیا میں کسی اور ملک نے ابھی تک یہ فیصلہ لیا ہے۔
روزنامہ جدوجہد میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جی سی یو کے وائس چانسلر اصغر زیدی نے اپنے ٹویٹ میں اپنے ادارے کو مبارکباد دیتے ہوئے اور 2021ء کی ایک غیر معمولی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ”ہمارے نئے قائم کردہ بین الاقوامی طلبہ کے دفتر نے 11 ممالک کے 60 طلبہ کو داخلہ دیا ہے۔ ان طلبہ میں سے زیادہ تر طلبہ کو مختلف بیرونی تنظیموں کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ جی سی یو لاہور کو آگے بڑھنا اور اوپر جانا ہے۔“
اپنے اس ٹویٹ کے ساتھ وائس چانسلر نے جہاں دیگر ملکوں کے جھنڈے اپنی ٹویٹ میں شامل کئے وہاں افغانستان کے جھنڈے کی جگہ طالبان کا نافذ کردہ جھنڈا بھی اپنی ٹویٹ میں شامل کیا گیا۔
انسانی حقوق کے کارکن ڈاکٹر سلیم جاوید نے ایک ٹویٹ میں وائس چانسلر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”مایوسی ہوئی کہ آپ نے طالبان کا جھنڈا استعمال کیا۔ آپ کی وضاحت ایک مذاق ہے کیونکہ پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ طالبان نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ جھنڈے کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔ افغانستان کا جھنڈا ابھی تک وہی استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ افغان کرکٹ ٹیم آج بھی استعمال کر رہی ہے۔“
وائس چانسلر اصغر زیدی نے ’ افغانستان کے جھنڈے کا معاملہ‘ کے عنوان سے کئے گئے ایک اور ٹویٹ میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ ”یاد رکھا جائے کہ ہم یہاں کسی قسم کا کوئی سیاسی بیان نہیں دیتے ہیں۔ ہم یہاں افغانستان میں موجودہ ریاست کے زیر استعمال پرچم کو انکے قومی پرچم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔“
انہوں نے اپنے ٹویٹ کے ساتھ وضاحت کیلئے ایک مضمون بھی شیئر کیا ہے۔ وائس چانسلر کی جانب سے شیئر کئے جانے والے ’ڈپلومیسی ڈاٹ ای ڈی یو‘ میں لکھے گئے اس مضمون میں افغانستان کے جھنڈوں کی تاریخ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ گزشتہ 102 سالوں کے دوران افغانستان میں 30 جھنڈے تبدیل ہوئے ہیں۔ تاہم مذکورہ مضمون میں بھی یہ کہیں نہیں لکھا گیا کہ موجودہ افغان طالبان کے جھنڈے کو عالمی طور پر کسی بھی ملک نے تسلیم کیا ہے یا نہیں کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اگر پاکستانی ریاست نے ایک جھنڈے اور حکومت کو ابھی تک تسلیم ہی نہیں کیا تو اسی ریاست کے زیر انتظام چلنے والے ایک سرکاری ادارے کے وائس چانسلر کس حیثیت سے اس جھنڈے کے حق میں بیانات بھی دے رہے ہیں اور ریاست کے اندر ریاست کے مصداق طالبان کے جھنڈے کو افغانستان کا قومی پرچم قرار دینے پر بضد ہیں۔
خیال رہے کہ اس تنقید کے بعد وائس چانسلر نے اپنے ٹوئٹر سے وہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی ہے۔
ان کے ایک ناقد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’جدوجہد‘ کو بتایا کہ موجودہ وی سی نے جی سی یو کی سافٹ طالبانائزیشن شروع کر رکھی ہے۔ وہ یونیورسٹی کے معیار کو بہتر بنانے کی بجائے اسے مدرسہ بنانا چاہتے ہیں۔
بشکریہ: روزنامہ جدوجہد