روشن آنکھوں میں خوابِ عشق کا سودا اور اک حرفِ جنوں، خیال قوس قزح کی مانند نت نئے رنگوں میں بکھرتے ہوئے، کچھ سناتے ہیں، کچھ بتاتے ہیں۔ حرف بے معنی نہیں ہوتے۔ رنگ بھرنے والے فن کار، ان کے تخلیق کار جس سوچ کو عام کرتے ہیں وہ اس نوائے سروش کے خالق ہوتے ہیں۔ ہونے اور نہ ہونے کے درمیان ہم بے خبر ہی رہتے اگر سچے تخلیق کار کوئی نیا رخ، نیا انداز اور اصل حقیقت اور اس کے شعور کوعام نہ کرتے۔
جب جبر کا موسم تھا، آمریت کا سورج سوا نیزے پر تھا، ظلم و ستم کی سیاہ رات تھی، جمہوریت کے متوالوں اور امن کے پروانوں نے اس سیاہ آندھی میں امن کی آشا کے دیپ روشن کر رکھے تھے۔ جی داروں نے اپنے برہنہ جسموں پر کوڑے کھائے اور جاں سے گزر جانے والوں نے جھولتے ہوئے پھندوں کو اپنے گلے میں کسی ہار کی طرح پہنا اور جاں نثار کر دی۔ تب حبیب جالب کی آواز ایک بار پھر گونجی؛
کوئی تو پرچم لے کے نکلے اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں
اقبال بانو کی آواز لہرائی؛
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
جب تاج اچھالے جائیں گے
شیما کرمانی نے قدم سٹیج پر اتارے تو اس کے پاؤں میں گھنگھرو بج اٹھے اور رقص میں ایک عالم جھوم اٹھا۔ ان ہی دنوں میں گھنگریالے بالوں، میانے قد، گندمی رنگت والے ایک نوجوان آرٹسٹ نے اپنے قلم اور برش سے جو لکیریں کھینچیں وہ جبر کے سینے میں کسی نشتر کی طرح چبھ رہی تھیں۔ وہ فیض و جالب کا پیروکار تھا، گورکی اور ٹالسٹائی کے افکار کا مقلد تھا، وہ نیشنل کالج آف آرٹس کا سب سے ذہین طالب عالم آرٹسٹ فیکا تھا جس کے کارٹون ایک مضمون ہی نہیں ایک بڑی کہانی لیے ہوتے ہیں۔ لوگ شہ سرخی اور اس کے متن سے پہلے اس کے کارٹون کو دیکھنا پسند کیا کرتے تھے۔ وہ آج بھی اسی طرح اسی شوق اور جذبے کے ساتھ اپنے ہنر میں گم رہتا ہے۔ لکیریں اور حسابی زاویوں سے ماورا سوچ کا اظہار وہ اپنی ہر تخلیق میں پیش کرتا ہے۔
آج سے 25 سال پہلے میں فیکا کو تلاش کرتا ہوا فرنٹیئر پوسٹ کے آفس جا پہنچا اور اس نے بغیر کسی تعارف کے مجھ سے کہا آؤ آؤ، جیسے وہ میرا انتظار کر رہا ہو حالانکہ میں اس سے پہلی بار مل رہا تھا۔
میں نے کہا، ایک کارٹون آپ نے بنایا تھا۔ وہ بولا؛ 'ایک نہیں ہزاروں بنائے ہیں۔ تہانوں کہیڑا چاہیدا اے؟'
میں نے کہا، وہ جو آپ نے منٹو کا ایک سکیچ بنایا تھا، ایک دیوقامت منٹو اور کچھ لوگ اسے دور بین سے دیکھ رہے ہیں، کچھ اس کے کندھے پر بیٹھے ہیں اور کچھ اس کی انگلیوں پر جھول رہے ہیں جبکہ کچھ سیڑھی لگا کر اس پر چڑھ رہے ہیں۔
فیکا مسکرا دیا اور بولا، چھوٹے لوکاں نوں وڈے لوگ دوربین نال وی نظر نئیں آؤندے۔ چلو تہانوں اپنا ڈیرا وکھاناں۔
ہم دونوں چل پڑے۔ فیکا نے اپنی کھٹارا سی فوکسی نکالی۔ سٹارٹ کی اور صفانوالہ چوک کے پاس ہی ایک جوس کی دکان پر جا کر گاڑی روک دی۔ جوس والا دوڑا آیا اور آتے ہی بولا؛ بسم اللہ! کیہڑا جوس لیانواں۔ فیکا جلدی سے بولا؛ کدی کوڑا (کڑوا) وی پلا دیا کر۔
انار کا جوس دو بڑے مگوں میں آیا اور ہم چسکیاں لینے لگے۔ فیکا نے ابھی تک میرا نام تک نہیں پوچھا اور نہ ہی پوچھا کہ میں کہاں کام کرتا ہوں۔ فلیٹ پر پہنچے تو اس نے دروازہ کھولا۔ فرش پر کئی ایک کارڈ شیٹس جن پر سکیچ بنے ہوئے تھے بکھری ہوئی تھیں۔ دیواروں کے ساتھ اس کی بنائی ہوئی کچھ پینٹگز اور سکیچز کے ڈھیر لگے تھے اور کچھ لڑھکتی ہوئی خالی بوتلیں تھیں۔
اس نے تپاک سے کہا آؤ بیٹھو۔ ہم ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگے۔ خیر منٹو کا سکیچ تو نہ ملا لیکن فیکا سے کارآمد گفتگو ہوئی جو میں نے ایک میگزین 'جلوہ' میں شائع کر دی جو حمید اختر صاحب نے نیا نیا شروع کیا تھا۔ فیکا کو اس کی کاپی دی اور وہ پھر قہقہہ لگا کے مسکرا دیا۔ اس کے بعد میں اس مسکراہٹ کو اپنے دل میں سموئے ہوئے وہاں سے چلا آیا۔
آج 25 سال بعد فیکا سے فون پر ایک ادھوری اور نامکمل سی گفتگو ہوئی۔
'1957 میں ملتان میں پیدا ہوا۔ میٹرک تک ملتان میں ہی سکول میں تعلیم حاصل کی۔ 1975 میں نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں داخلہ لیا۔ پانچ سال تک یہاں فائن آرٹس میں سپیشلائزیشن کی۔ یہاں سے سیدھے پرنٹ میڈیا کی جانب رخ کیا۔ ابتدا The Muslim اسلام آباد سے کی۔ وہاں سے 1980 میں کراچی میں کچھ عرصہ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں کام کیا۔ ڈان گروپ آف نیوز پیپرز کا ایک شام کا اخبار The Star تھا جس میں کارٹون بنانا شروع کیے'۔
'نیشنل کالج آف آرٹس میں دوران تعلیم تجرباتی کام بہت کیے۔ میں ایک کسان کا بیٹا تھا اور لاہورآ کر میں نے مخلوط ماحول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ہمارے پرنسپل خالد اقبال تھے۔ استادوں میں کولن ڈیوڈ اور ظہور الاخلاق تھے۔ نام تو میرا رفیق احمد ہے لیکن یار دوستوں نے 'فیکا' کہنا شروع کیا اور یہی میرا نام ہو گیا۔ نیشنل کالج میں جگراہٹ بہت تھی۔ ایک بار میں نے پیلے رنگ میں نیلا رنگ ملا دیا۔ ہمارے فیض صاحب کی بیٹی کو بہت تاؤ آیا اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے ہرے رنگ کو لال رنگ کیوں بنا دیا ہے۔ میں نے مودبانہ گزارش کی کہ 'میں کلر بلائنڈ ہوں، مجھے ہرا رنگ دکھائی نہیں دیتا'۔ میری جماعتیوں سے بہت لڑائیاں ہوتی تھیں، وہ آ کر جھگڑا کیا کرتے کہ تصویریں بنانا گناہ ہے اور ہم انہیں دکھا دکھا کے تصویریں بنایا کرتے تھے۔
جب ضیاء الحقی دور کا آغاز ہوا تو میرے ہاتھ ذرا اور زیادہ کھل گئے۔ ڈان گروپ کے پیپر 'سٹار' میں تھا کہ ایم کیو ایم والوں سے پیچے پڑ گئے۔ میں الطاف حسین کے کارٹون کھینچ کے بنایا کرتا تھا۔ جب وہ ڈان میں چھپتے تو ایم کیو ایم والے مجھے بہت گھورتے تھے۔ میں نے اپنے باسز سے کہا کہ میری ان سے لڑائی ہو جائے گی۔ چنانچہ میں چھٹی پر اسلام آباد چلا گیا۔
ملیحہ لودھی اور مشاہد حسین The Muslimکے ایڈیٹرز تھے۔ اُن کی مجھے آفر تھی۔ میرا کام وہاں شروع ہو گیا۔ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ میں اور میرے کچھ دوست اپنے گھر کے باہر بیٹھے تھے، 'بوتل' کھلی ہوئی تھی اور ہمارے سامنے رکھی تھی۔ ایک پولیس موبائل ہمارے سامنے سے گزری اور کچھ دیر بعد واپس آ گئی۔ انہوں نے ہمیں گرفتار کر کے اڈیالہ جیل بھیج دیا۔ دوسرے دن جمعہ تھا، ہماری ضمانتیں نہ ہوئیں۔ میرا وکیل سابق چیئرمین سینیٹ نیّر بخاری تھا۔ ہم بے فکر تھے، ہمیں کیا پتہ 'بدنامی' کیا ہوتی ہے۔ منوبھائی نے کالم لکھا 'چور ڈاکو پکڑے نہیں جاتے، پولیس فیکا کو گرفتار کر لیتی ہے'۔ ڈھائی تین سال تک حدود آرڈیننس کا مقدمہ چلا اور بالآخر رہا ہو گئے۔
پھر مجھے فرنٹیئر پوسٹ والوں نے بلا لیا۔ وہاں 1989 تک کام کیا۔ 1988 میں ضیاء الحق مر گیا تو مجھے کہا گیا کہ لاہور سے فرنٹیئر پوسٹ کا آغاز کرنا ہے۔ (ہاں یہ بتا دوں کہ ضیاء الحق کی موت سے میرے کارٹونز کا ایک کردار مر گیا کیونکہ میں نے جس قدر اس کی مونچھوں اور آنکھوں کے ساتھ برتاؤ کیا ہے کہ اس کے پالتو اور بعد ازاں اس کے مجاور چیخ اٹھے تھے لیکن میں باز نہ آیا)
لاہور میں بھی فرنٹیئر پوسٹ نے تھرتھلی مچا دی۔ میرا امریکہ کے لیے ویزا لگ چکا تھا۔ میں نے دو بندے خالد حسین اور اسد جعفر تیار کر کے اخبار کے حوالے کیے۔ میں نے پوچھا کہ 'امریکہ کیوں گئے؟' وہ بولا، 'ایک گوری کے پیچھے گیا تھا، ساریاں گلاں تے دسن والیاں نئیں ہوندیاں'۔
فیکا کی داستان حیات کا ایک ورق یہ بھی ہے کہ جب وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا آغا خان ہسپتال کے ایک وارڈ میں پڑا تھا اور اس کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں تھے کیونکہ تمام جمع پونجی ختم ہو چکی تھی۔ اس کے اخبار اور میڈیا گروپ نے جس میں اس کے ہنر کے باوصف اخبار کو عوامی مقبولیت میں درجہ اول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اس کے علاج کے لیے ہسپتال کو پیسے دینے سے انکار کر دیا۔ مگر فیکا نے حکومت کے ساتھ ساتھ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ ایک مسیحا آیا اور اس نے ناصرف ہسپتال کا بل چکا دیا بلکہ جو پیسے اس نے ہسپتال کو دیے تھے وہ بھی لوٹا دیے۔ لیکن یہاں میڈیا مالکان اپنے رویے کی وجہ سے سرتاپا برہنہ ہو گئے۔
فیکا کبھی کسی بھی سیاست دان کا ہم نوا نہیں ہوا۔ وہ ایک روشن ضمیر اور ترقی پسند خیال و افکار کا ہم نوا ہے اور اپنے ہی جیسے دوستوں کا جگروٹ ہے۔ آج بھی لاہور میں اس کے قہقہے گونجتے ہیں اور وہ جگہیں اور ڈھابے اسے یاد کرتے ہیں جہاں مخمور راتوں میں اس نے جام ٹکرائے تھے اور انقلاب کے گیت گائے تھے۔ میں اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کر سکا اور نہ ہی میرا یہ مقصد تھا۔ فیکا نے ایک پرائیویٹ ریڈیو ایف ایم ون او تھری میں بھی انٹرٹینمنٹ کے ہیڈ کے طور پر کام کیا ہے۔ اس کے قدم اور قلم کبھی نہیں رکے، وہ بگولوں کا ہم راہی ہے اور اپنی دنیا میں اپنے کرداروں کے ساتھ جیتا ہے۔ اس نے کبھی ایوارڈ و انعام کے لیے کوئی لابنگ یا بیک ڈور راستہ استعمال نہیں کیا اور نہ ہی کبھی متلاشی رہا ہے۔ وہ اپنے چاہنے والوں کی آنکھوں میں اپنے ہنر اور چتر کاری کے باوصف زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ (نامکمل)