Get Alerts

سیکولر جمہوریت کے حق میں آخوند خراسانی کے دلائل

سیکولر جمہوریت کے حق میں آخوند خراسانی کے دلائل
آیت الله العظمیٰ محمد کاظم خراسانی، المعروف آخوند خراسانی، 1894ء سے 1911ء میں اپنی وفات تک اہلِ تشیع کے مرجعِ اعلیٰ رہے۔ آپ اپنے علمی مقام کی وجہ سے آخوند، یعنی سب سے بڑا عالم، کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کی کتاب ”کفایۃ الاصول“ شیعہ اصولِ فقہ کی اعلیٰ ترین کتاب مانی جاتی ہے اور نجف اور قم کے درسِ خارج میں اسی کتاب پر بحث کی جاتی ہے۔

اس کتاب کی چار سو شرحیں لکھی جا چکی ہیں۔ آخوند خراسانی 1907ء میں ایشیاء کے سب سے پہلے جمہوری انقلاب کے بانی بھی ہیں، جس کے نتیجے میں ایران میں ایک جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ آخوند خراسانی نے انقلاب کی کامیابی کے بعد کوئی حکومتی اختیار قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

1911ء میں اس نوزائیدہ جمہوریت کو روس اور برطانیہ نے حملہ کرکے ختم کر دیا۔ 1915ء میں جنگ عظیم اول چھڑگئی اور اس کے بعد 1920ء میں رضا خان پہلوی نے مارشل لا لگا کر ایران میں دوبارہ بادشاہت قائم کر دی۔

یہ مضمون آخوند خراسانی کے اپنے شاگرد آیت الله نائینی کے سوالوں کے جوابات پر مبنی مکالمے کا خلاصہ ہے جس میں وہ سیکولر جمہوریت کے حق میں اپنے دلائل بیان فرماتے ہیں۔ مفصل گفتگو کا فارسی متن اکبر ثبوت صاحب کی کتاب ”دیدگاه‌ ہای آخوند خراسانی و شاگردانش“ میں پڑھا جا سکتا ہے۔ آیت اللہ نائینی کے شاگردوں میں علامہ امینی، علامہ طباطبائی، آیت اللہ خوئی اور علامہ نقن جیسے بزرگ علمائے تشیع شامل ہیں۔

جدید دور میں اہل تشیع کے مرجعِ اعلیٰ آیت الله العظمیٰ سید علی سیستانی آخوند خراسانی ہی کی روش پر چلتے ہوئے عراق میں سیکولر جمہوریت کے سب سے بڑے مدافع بن کر ابھرے ہیں۔ آخوند خراسانی کی طرف سے پیش کردہ اکیس دلائل کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

1: اگر ایران میں شیعہ علماء نے حکومت پر قبضہ کیا تو دوسرے مسالک و مذاہب میں بھی یہ رجحان پیدا ہوگا کہ وہ بھی اپنی متعصب دینی حکومتیں بنائیں اور اس طرح پورا خطہ مذہبی جنگوں اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کی لپیٹ میں آ جائے گا۔

2: جب علماء حکومت میں قدم رکھیں گے تو اپنے نقائص کو نہیں دیکھ سکیں گے اور ان کی توجیہ کریں گے اور حکومتی خرابیوں کو نظر انداز کریں گے۔

3: مسند علماء خرابیوں سے مقابلے کی مسند ہے، اور حکمرانی کی مسند خرابیوں سے آلودہ ہوتی ہے۔ علماء حکومت کرنے لگے تو خرابیوں کا مقابلہ کرنے والی مسند ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی اور علماء بھی فاسد ہو جائیں گے۔ وائے ہو اس روز پر جب نمک ہی خراب ہو جائے (فارسی ضرب المثل ہے کہ جب کوئی چیز خراب ہو تو اس کو نمک لگاتے ہیں، اور اگر نمک ہی خراب ہو جائے تو اس کا کوئی علاج نہیں)۔ اگر ہم فاسد وخراب نہ بھی ہوئے تو پھر بھی سب خرابیاں علماء کی گردن میں ڈالی جائیں گی اور یوں دین تباہ ہو جائے گا۔

4: حکومت چلانے کا علم اور سیاست ایک باقاعدہ علم اور ہنر ہے اور علما اس علم وہنر سے مکمل طور پر نابلد ہیں۔ علم وتجربے اور ہنر کے بغیر اس شعبے میں داخل ہونا علماء کی رسوائی کا باعث بنے گا۔ صرف علماء کا نیک ہونا دلیل نہیں کہ وہ ہر علم وہنر کو جانتے ہیں۔

5: ہمارا مقصد اور آرزو یہ ہے کہ حکومت دین کی پیروی کرے درحالیکہ اگر ہم نے حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی تو دین کے حکومت کی پیروی کرنے جیسے امر کا شکار ہو جائیں گے۔ (مثلاً حفظِ نظام کو اوجب سمجھنا، اور نص کو مصلحتِ نظام پر قربان کرنا۔)

6: چونکہ لوگ ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کا نائب سمجھتے ہیں اس لئے ان کو یہ توقع ہے کہ ہم امام مہدیؑ کی حکومت جیسے حالات پیدا کریں۔ جب ہم اس سطح پر عدالت کو برقرار نہ کر پائے تو امام زمانہؑ اور دین سے متعلق ان کا عقیدہ کمزور پڑ جائے گا۔

7: ابھی ہمارے پاس حکومتی عہدے نہیں ہیں تو اس قدر آپس کے جھگڑے ہوتے ہیں۔ اگر ہم حکومت تک پہنچ گئے تو یہ اختلافِ نظر دین کے کئی حصوں میں تقسیم ہونے اور کئی نئے فرقے بننے اور دین کے نقصان کا باعث بنے گا۔

8: ہمیں فقط علمِ فقہ کا علم ہے۔ چونکہ ہم اچھے فقیہ ہیں تو یہ اس کی دلیل نہیں کہ دیگر علوم، جیسے اقتصادیات اور سیاست وغیرہ، میں بھی ماہر ہوں۔ علمِ فقہ اپنے موضوع کا علم ہے جس کا معاشرے کو چلانے اور اس کے مسائل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

9: اسلام کو کئی صدیوں سے حکومتِ اسلامی نے نہیں سنبھالا بلکہ اسلام کو حوزہ علمیہ و مدارس نے سنبھالا ہوا ہے۔

10: ابھی ہمارے ہاتھ حکومت نہیں آئی تو ہمارے قریبی لوگ کیا کچھ نہیں کرتے۔ وائے اس روز پر جب حکومت ہمارے ہاتھ میں آ جائے۔ جب ہمارے پاس حکومت ہوگی، تو ہمارے رشتہ دار اس موقع کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گے اور مرجعیت و دین اسلام کی رسوائی کا باعث بنے گے۔ اس وقت لوگ ان کے ایسے کاموں کو ہمارے حساب میں لکھیں گے۔

11: جن کے پاس حکومتی عہدے ہوتے ہیں، وہ جھوٹ وفریب اور غلط کو اپنے کام اور پیشے کی پہلی ضرورت سمجھتے ہیں، اور شاید بعض اوقات ان کے کام جھوٹ کے بغیر چل بھی نہیں سکتے، اور ممکن ہے بعض اوقات بہت اہم مصلحتوں کی وجہ سے ان کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہو۔ چونکہ ان عہدوں کی وجہ سے جھوٹ سے مکمل پرہیز ان کے لئے ناممکن ہے اس لئے علمائے دین کو ان عہدوں سے پچنا چاہیے۔ کیونکہ اگر سچائی و صحیح بات کی مکمل پابندی کریں تو ان کے کام نہیں چل سکیں گے۔ اگر یہ چاہیں کہ دوسرے سیاستدانوں کی طرح جہاں چاہیں جھوٹ بولیں، تو اس کام کے دو خطرے ہیں:

ایک یہ کہ آہستہ آہستہ جھوٹ کی برائی ان کی نظر میں ختم ہو جائے گی اور صداقت کی پابندی دیگر کاموں میں بھی کمزور ہو جائے گی۔ یہ کام سب کے لئے برا ہے لیکن عالم دین کے لئے سب سے زیادہ برا اور بہت ہی خطرناک ہے۔

دوسرا یہ کہ جب عام لوگ دیکھیں گے کہ علمائے دین ہر بہانے سے اگرچہ وہ درست ہی کیوں نہ ہو، متعدد مواقع پر جھوٹ بولتے ہیں تو آہستہ آہستہ ان کے لئے یہ شبہ پیدا ہوگا کہ کہیں ایسے تو نہیں دیگر امور جیسے احکام الٰہی اور دینی و مذہبی عقائد میں بھی کسی وجہ سے، اگرچہ وہ وجہ درست ہی کیوں نہ ہو، وہ جھوٹ بولتے ہیں تو اس وقت عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہونا ہی بہت خطرناک چیز ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگوں میں دینی آداب و مبادی سے متعلق بے عقیدتی پیدا ہوگی۔

12: جب تک عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے عمل اور جدوجہد کا مقصد صرف ظلم کو کم کرنا اور کرپشن کے دائرے کو تنگ کرنا ہے۔ ہمارا ارادہ دنیوی غلبہ، منصب یا مراعات حاصل کرنے یا کسی خاص فرد یا گروہ کو اقتدار یا مرتبے تک پہنچانے کا نہیں ہے۔ جب تک لوگ ہمیں اس طرح جانتے رہیں گے، وہ یقین کریں گے کہ ہم اپنے اعمال میں مخلص ہیں اور ہمارے اعمال صرف خدا کے لئے ہیں۔ اور اسی یقین کی وجہ سے وہ ہمارے پیچھے چلیں گے۔ ہماری ضروریات اور مشکلات کو اپنی ضروریات اور مشکلات سے بھی زیادہ اہم سمجھیں گے۔ ہمارا ساتھ دینے اور ہمارے مقاصد کے حصول کی خاطر وہ دل اور جان کے ساتھ سخت محنت کریں گے اور ہر قسم کی مشکلات کو تحمل کریں گے اور قربانیاں دیں گے۔ لیکن اگر وہ محسوس کرنے لگے کہ ہم اقتدار کی جنگ میں داخل ہو چکے ہیں اور ہمارا مقصد خود دنیاوی غلبہ، منصب اور مراعات حاصل کرنا ہے۔ تاکہ ہمارے اقربا اور رشتہ دار دنیاوی اقتدار، مرتبے اور مراعات تک پہنچ جائیں، تو ہماری نیتوں کے اخلاص پر ان کا یقین کمزور ہو جائے گا اور ناصرف یہ کہ وہ سنجیدگی سے ہمارا اور ہمارے مقاصد کا ساتھ نہیں دیں گے اور اس راہ میں کوشش اور قربانی دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے، بلکہ آہستہ آہستہ وہ سیاست کی دنیا میں ہمیں اور ہمارے حریفوں کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے اور آخرکار معاملہ اس مقام پر پہنچ جائے گا کہ ناصرف وہ ہمارے مخالفین بلکہ مذہب کے مخالفین سے بھی جا ملیں گے۔

13: دنیاوی اموال و اقتدار کے ساتھ وابستگی ایک بہت عظیم پردہ ہے جو ہمیں حقیقت کو دیکھنے اور اس کے مشاہدے اور خدا کے حکم کو سمجھنے سے روک سکتا ہے۔ کیا یہ ٹھیک ہے کہ میں حقیقت کو جاننے کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو کم کرنے کے بجائے اپنے لیے بہت زیادہ اور بہت بڑی رکاوٹیں پیدا کروں، تاکہ دانستہ اور نادانستہ طور پر احکام الٰہی کے استنباط میں ان رکاوٹوں سے متاثر ہو جاؤں، اور صحیح احکام تک پہنچنے اور ان کا اظہار کرنے کے بجائے اپنی وابستگیوں اور خواہشات کا جواز پیش کرنا شروع کروں؟ کیوں نہ میں مقام و منصب سے اپنے لگاؤ کو جو میرے اور ہر انسان کے اندر ہے اور صدیقین کے دلوں سے نکلنے والی آخری چیز ہے، کو قابو میں رکھوں؟

14: پندرہ سال پہلے سید جمال الدین افغانی اسد آبادی کہا کرتے تھے: ’’جدیدیت ( Modernity ) کا سیلاب مشرق کی طرف تیزی سے آ رہا ہے۔ حکومتِ مطلقہ (بادشاہت) کی بنیاد فنا ہونے والی ہے۔ آپ مطلق العنان حکمرانی کی بنیاد کو تباہ کرنے کی جتنی کوشش کر سکتے ہیں کریں۔“ میں اگرچہ سیاست کی دنیا میں سید کی بعض باتوں اور پالیسیوں سے متفق نہیں ہوں، لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ ان کی یہ بات بلکل درست ہے، اور ناصرف یہ آج سچ ہے، اور پندرہ سال پہلے سچ تھی، بلکہ ایک صدی پہلے بھی سچ تھی۔ ہمیں سو سال پہلے (1800 کے عشرے میں) اس حقیقت کو سمجھ لینا چاییے تھا کہ مطلق العنان حکمرانی کی بنیاد تباہ ہونے والی ہے اور اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے ہمیں خود مطلق العنان حکومت، جو کہ خرابیوں (کرپشن ) اور بے شمار مظالم کی جڑ ہے، کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کا علمبردار بننا چاہیے تھا اور ظلم و خرابی ( کرپشن) کو کم کرنے کے لیے ہمیں حکمران کے اختیارات کا دائرہ محدود کر دینا چاہیے تھا اور مطلق العنان حکومت کے بجائے قانون کی پابند حکومت قائم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن اس معاملے میں ہم نے اتنی دیر کردی کہ تقریباً سو سال کے انتہائی تلخ ایام اور بدترین حالات گزارنے کے بعد، اب عقلا نے مطلق العنان حکومت کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا ہے۔ اس کے بعد انہیں چاہیے کہ وہ اس کام سے پرہیز کریں کہ تمام حکومتی اختیارات ایک جگہ پر جمع ہو جائیں اور حکومت جو کام بھی کرے اس سے متعلق اس سے باز پرس ہو۔ وہ حکومتی اختیارات کو تقسیم کرکے ان کو عوام کے زیر نظر قرار دیں اور آمر حکمرانوں کے بے شمار و ناجائز اختیارت پر پابندی لگائیں۔ اس تحریک کے مقابلے میں بعض لوگوں نے دین کے نام اور حکومت مشروعہ ( اسلامی بادشاہت ) کا پرچم اس طرح اٹھایا ہوا ہے جیسا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے مقابلے میں کچھ لوگوں نے قرآن کے نسخوں کو نیزوں پر اٹھایا ہوا تھا اور ان کا یہ اصرار ہے کہ حکومت مطلقہ ( بادشاہت ) کو برقرار رکھا جائے تاکہ ان کے مطابق شریعت کی حد محفوظ رہے۔ جبکہ نہ تو مشروطیت (1907ء کے جمہوری انقلاب) کے قیام سے پہلے اور نہ ہی اس کے دبانے کے بعد (یہاں استبداد صغیر کی طرف اشارہ ہے، 24 جون 1908ء کو شاہ کے شیخ فضل اللہ نوری کی مدد سے تہران میں قتل وغارت کرکے جمہوریت کو ختم کرنے اور ملک بھر کے عوام کے قیام کے بعد 14 نومبر 1909ء کو جمہوریت کے بحال ہونے کے درمیان کی مدت کو ایرانی تاریخ میں استبدادِ صغیر کہتے ہیں)، شریعت اور مقدس الٰہی احکام کی حدود محفوظ نہیں تھیں اور یہ لوگ جو جمہوری حکومت (مشروطہ) کو ختم کرنے اور بادشاہت (مشروعہ) جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا مقصد صرف اور صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اور مخلوق خدا کے جان ومال پر اپنا ناجائز و مطلق قبضہ جاری رکھنا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تحریک جمہوریت کا مقصد صرف بادشاہت نامی سرکش گھوڑے کو ہی لگام ڈالنا نہیں، بادشاہ اور اس کے کارندوں کو اپنے ماتحتوں اور عوام پر ظلم وزیادتی اور ناجائز کاموں اور من مانی و جابرانہ حرکتوں سے روکنا ہی نہیں، بلکہ جمہوریت کا مقصد یہ ہے کہ تمام ظالموں، حکمرانوں، صاحبان اختیار و سربراہوں کو کنٹرول کرنا ہے، تاکہ وہ اپنے ماتحتوں اور اپنے جیسوں پر ظلم نہ کر سکیں، اور لوگوں سے رشوت و بھتہ اور نذرانے نہ لے سکیں۔ ہاں جمہوری نظام کا حتمی مقصد یہ ہے کہ تمام ظالموں کے ہاتھ ہر ممکن حد تک باندھ دئیے جائیں تاکہ وہ عوام کے حقوق پامال نہ کر سکیں۔ اگر یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے اور عوام علم اور میدان میں حاضری کے ساتھ اس مرحلے تک پہنچ جاتے ہیں کہ ظلم کسی بھی لباس میں ان پر حکمرانی نہیں کر سکتا، تو ہم ان تباہیوں کا مشاہدہ نہیں کریں گے جو سلطنت کے کارندوں نے ابھی تک کی ہیں اور نہ کسی فردِ واحد کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ قانون سے بالاتر ہو اور قانون ساز بھی خود ہو، عدلیہ بھی خود ہو اور انتظامیہ بھی خود ہو۔

15: دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مر جاتے ہیں اور کسی کو آپ علماء پر اور آپ کے مذہب پر اس وجہ سے اعتراض نہیں ہوتا کہ اس کی بیماری کا علاج نہیں کر سکے۔ اس لیے کہ آپ نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ آپ کا مذہب بیماریوں سے شفاء کا ذمہ دار ہے، اور مریضوں کا علاج کرنا آپ علمائے دین کے فرائض میں سے ہے۔ اب اگر آپ اپنے دین اور علماء کی عظمت میں اضافہ کرنے کے لیے ایسا دعویٰ کرتے ہیں تو آپ اپنے دین اور اپنے آپ پر بہت بھاری بوجھ ڈالیں گے اور تمام لاعلاج بیماریوں کی ذمہ داری آپ پر اور آپ کے مذہب پر عائد ہوگی۔ یہی حال سیاست کا بھی ہے۔ ہم سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم لوگوں کے تمام دنیوی امور کو منظم طریقے سے انجام دینے کے لیے بہترین لائحہ عمل پیش کریں اور خود اس منصوبے پر عمل کرانے والے ہوں اور ان کے تمام سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل کو حل کریں۔ ان کو ہم سے صرف یہ امید ہے کہ ہم مخلوق خدا کے مصائب و مشکلات اور ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم، بدعنوانی اور لوٹ گھسوٹ کے معاملے میں غیر جانبدار نہ رہیں۔

16: یہ نظریہ کہ اگر علماء میں سے کوئی ایک حکومت کا سربراہ بن جائے تو دنیا کے حالات بہتر ہو جائیں گے، وہی افلاطون کا نظریہ ہے جو یہ کہتا تھا کہ مدینہ فاضلہ ( Utopia ) قائم کرنے کے لیے فلسفی کو بادشاہ ہونا چاہیے تاکہ ہر عیب سے پاک معاشرہ بنا سکے۔ ہمارے عقیدے کے مطابق جب تک اقتدار بغیر کسی نقص کے امامِ معصوم کے ہاتھ میں ہو اور اسے اپنے ارادے کو نافذ کرنے میں مزاحمت کا سامنا نہ ہو، تبھی مثالی معاشرہ قائم کرنا ممکن ہے۔ لہذا معاشرے کے حالات کی اصلاح علمائے کرام کے محض قیادت کو قبول کرنے سے ممکن نہیں ہے اور اگر یہ کام ممکن ہوتا تو امام صادق علیہ السلام کو جب حکومت کی سرپرستی کرنے کی پیشکش کی گئی تو وہ اس کو رد نہ کرتے۔ آپ جانتے ہیں کہ جب ابو مسلم خراسانی نے امام صادق علیہ السلام سے درخواست کی کہ آپ امت اسلامیہ کی قیادت کو قبول فرمائیں اور اجازت دیں کہ آپ کی قیادت میں اسلامی حکومت بنائی جائے تو آپ نے فرمایا: «ما أنت من رجالی ولا الزمان زمانی» نہ تم میرے لوگ ہو اور نہ ہی یہ وقت میرا وقت ہے۔ امام علیہ السلام نے حکومت کی کرسی پر بھروسہ کرنے کے بجائے خدا کے بندوں کی تعلیم اور رہنمائی کے ذریعے، جہاں تک ممکن ہو سکا، عوام کی علمی سطح کو بلند کرنے کے عظیم اقدمات اٹھانے کو ترجیح دی، تاکہ انتظامی حالت اور سماجی نظام میں بہتری لائی جا سکے۔

17: ہمیں اپنی پوری تاریخِ مرجعیت میں سیاست کی دنیا میں غلط فیصلے کرنے کے دو متوازی طریقوں کا سامنا رہا ہے۔ ایک افراطی (ضرورت سے زیادہ مداخلت) اور دوسرا تفریطی (ضرورت سے کم مداخلت)۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ «لاتری الجاهل إلا مفرطاً أو مفرطا»، آپ جاہل کو افراط یا تفریط کے علاوہ کسی حالت میں نہیں پائیں گے۔ مثال کے طور پر غور کریں کہ سو سال پہلے ہمیں ظلم کا مقابلہ کرنے اور کرپشن کو کم کرنے کے لئے جو کہ ہمارے معاشرے میں اوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی تھی، جدوجہد کرنا چاہئیے تھی، اور اپنے معاشرے کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ کوشش کرنی چاہئیے تھی۔ قوم کی اصلاح و ترقی کے لئے اہم اقدامات کرنے چائیے تھے۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور ان اہداف کی خاطر سنجیدہ قدم اٹھانے کے بجائے (1804ء میں) ہم نے طاقتور زارِ روس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا اور اس کے باوجود کہ ہمیں ایک بار سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا ہم نے سبق نہیں سیکھا اور دوسری بار (1826ء میں) وہی غلطی دہرائی۔ اگرچہ ایسے حالات بھی پیش آئے کہ جب روسی دوسرے علاقوں میں اپنی مشکلات میں پھنسے ہونے کی وجہ سے بہتر شرائط پر جنگ بندی کا معاہدہ کرنے کو تیار تھے، لیکن ہم نے ایسے نہیں کیا یہاں تک کہ روسیوں کو ان کی دیگر پریشانیوں سے چھٹکارا مل گیا۔ پھر وہ پوری طرح دل و جان سے ہمارے سامنے آئے اور پوری طاقت سے ہم پر حملہ کیا اور ہمیں اتنی بڑی شکست دی کہ ہمارے ملک کے بیس وسیع ضلعے اپنے قبضے میں لے لئے اور اس جنگ کے بھاری تاوان اور نقصان کا بوجھ ہم پر ڈال دیا اور ہمیں اپنے قونصل خانے کے فیصلوں کا پابند بنا دیا۔ خدا ہی جانتا ہے اس جنگ کی دوسری آفتوں سے ہم کب چھٹکارا پائیں گے۔ اس کے علاوہ اس تباہ کن شکست کی وجہ سے ہمارے علماء جیسے آغا سید محمد (عرف سید مجاہد)، ملا احمد نراقی اور ملا محمد تقی برغانی شدید تنقید کا نشانہ بنے اور بعض اوقات ان کی توہین کی گئی۔ تاہم ہماری غلطی یہ تھی کہ ہم نے انتہائی خراب داخلی صورت حال کو سدھارنے کی کوشش کرنے کے بجائے دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک کا مقابلہ دنیا کی سب سے کرپٹ اور سب سے کمزور حکومت کی قیادت اور سرپرستی میں کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور لوگوں میں جنگ کا شوق پیدا کرنے کے لیے، فقہ آل محمد (ص)، معصومین (ع) اور قرآن کریم کے نام پر ہم نے یقینی فتح کا وعدہ دے دیا۔ شکست کے بعد دوست و دشمن کے اعتراضات کا ایک سیلاب ہماری طرف بہہ نکلا کہ ان یقینی وعدوں کے پورا ہونے کے بجائے، وہ بھی خدا، پیغمبر اور ائمہ کے نام سے دیئے گئے وعدے، ہمیں ایسی ذلت آمیز شکست اور عبرتناک نتائج کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟

18: شیعہ مذہب کی بقا و دوام کا سب سے اہم عنصر جو اس مکتب کو دوسرے اسلامی فرقوں سے ممتاز کرتا ہے، اجتہاد ہے۔ اگرچہ یہ صرف اجتہاد نہیں بلکہ اجتہاد مطلق ہے، کیونکہ چاروں سنی مذاہب میں سے ہر ایک کے پیرو فقہاء بھی اجتہاد کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اجتہاد ان حدود میں ہوتا ہے جن کا تعین اس فرقے کے رہنما نے کیا ہوتا ہے، نہ کہ بہ صورت مطلق۔ مثال کے طور پر حنفی مسلک کا اجتہاد اور طریقہ ابو حنیفہ کے اجتہاد اور مسلک تک محدود ہے، آزادانہ نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اہل تشیع کے برعکس سنیوں میں آزادانہ سوچ و فکر کرنا اور اجتہاد کیوں نہیں؟ اور ان کے درمیان باب اجتہاد اپنے حقیقی معنی میں بند کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب حکومتیں سنی مذاہب کی سرپرست بنیں تو وہ اجتہاد اور آزاد فکر سے خوفزدہ تھیں اور اسے اپنے حکومتی مفادات اور مصلحتوں کے منافی سمجھتی تھیں تو انہوں نے اجتہاد کا دائرہ تنگ کر دیا اور آزادنہ فکر کرنے کو حرام قرار دیا اور سب کو پابند کیا کہ وہ اپنے اجتہاد و فکر کرنے کے دائرے کو چار اماموں میں سے ایک کے اجتہاد و فکر کے مطابق انجام دیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے بھی اپنے پاس وسیع حکومتی اختیار کے بغیر، جہاں بھی ضرورت پڑی اور جس حد تک ان کے پاس طاقت اور سہولت تھی، اپنے مخالفین اور اپنی ہی صنف (علماء و فقہاء) کے افراد کی آزادانہ سوچ اور اظہار رائے کو روکا ہے۔ اور اکثر اوقات انہوں نے کوشش کی کہ جو بھی ہمارے نظریات، بلکہ ہمارے مفادات، کے خلاف کوئی بات کہے تو اس کا منہ بند کر دیں اگرچہ وہ علم و تقوی کی کسی بھی سطح کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔ اس مقصد کی خاطر ہمارے علماء بھی بارہا اپنے ہی مسلک کے بعض علماء کو کافر اور فاسق قرار دینے کی حد تک گئے ہیں اور ان اقدامات اور طریقوں سے ہم نے اپنے دین و فقہ کو علمی لحاظ سے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان المناک واقعات کو روکنے کے لیے جتنی بھی توانائی و سہولت ہمیں میسر ہے، اسے بروئے کار لا کر ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے کہ جن سے کوئی بھی رکاوٹ و پابندی اجتہاد اور آزادئ فکر کی راہ میں حائل نہ ہو۔ اس طرح کے اقدامات کرنے کے بجائے ملاؤں کی حکومت بنا کر اقتدار و اختیارات کے دائرے کو وسیع کرنے کی کوشش کرنا اور جو طاقت اس وقت ہمارے پاس ہےاس کو کئی گنا مزید بڑھانا غیر معقول ہے۔ چونکہ اس طرح کرنے سے ایسے ناخوشگوار واقعات کی تعداد میں اضافہ ہو گا اور اس کے منفی نتائج ہمارا اور ہمارے مکتب کا دامن پکڑ لے لیں گے۔ اور جو کچھ ہم بنارہے ہیں اسے اپنے ہاتھوں سے خود ہی تباہ کر دیں گے۔

19: اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عام لوگوں کے لیے مجھ تک پہنچنا کسی اور تک پہنچنے کی نسبت آسان ہے۔ جو کوئی مجھے خط لکھے اور نجف بھیج دے وہ خط مجھ تک پہنچ جا تا ہے۔ جو بھی نجف میں آئے وہ کسی بھی وقت مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے۔ اگر میں گھر پر ہوں تو وہ دروازہ کھٹکھٹا کر اندر آ سکتا ہے اور اگر میں مدرسہ، مسجد یا حرم میں ہوں تو مجھ تک پہنچنا اور بھی آسان ہے۔ نہ کوئی دروازہ اور نہ کوئی کنڈی، نہ کوئی دربان، نہ کوئی محافظ، نہ کوئی پیشگی اجازت اور طے شدہ ملاقات، مختصر یہ کہ کوئی بھی مجھ سے کسی بھی صورت حال میں رابطہ کر سکتا ہے اور کوئی بھی مسئلہ یا مشکل بیان کر سکتا ہے۔ اب اگر میں ایک حکمران کی جگہ لے لوں تو مجھ تک پہنچنا اور مجھ سے ملنا اور بات کرنا کسی اور تک پہنچنے اور اس سے ملنے اور بات کرنے سے زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ اس سے میرے اور معاشرے کے بیچ ایک پردہ حائل ہو جائے گا۔

20: اگر ہم حکومت پر قبضہ کرنا چاہیں تو حتماً ان سیاستدانوں کو دبانا ہوگا جو ظلم سے نجات اور قومی حکومت کے نعرے کے ساتھ ظلم کے خلاف جدوجہد میں ہمارے ساتھ کھڑے تھے۔ ان کو دبانے کا بلاشبہ عوام پر برا اثر پڑےگا اور کہا جائے گا دیکھا! مذہبی رہنماؤں نے آمرانہ حکومت کے خلاف جدوجہد کے دوران سیاست دانوں اور قومی لیڈروں کی حمایت و نظریات کا استعمال کیا اور جب اقتدار میں آگئے تو اب مکمل اقتدار اور سب اختیارات پر قبضہ کرنے اور مطلق العنان حکومت اور ظلم کو ایک نئی شکل میں باقی رکھنے کے لیے انہوں نے سیاست دانوں اور قومی شخصیات کو دبا دیا ہے۔ یعنی کہ جو کچھ خلیفہ سفاح نے ابو سلمہ اور سفاح کے بھائی منصور نے ابو مسلم کے ساتھ کیا۔

21: ہمارے شیخ (شیخ انصاری) علمائے دین کی حکمرانی کو قبول نہیں کرتے، وہ اس کام ( علماء کے حکومت کرنے یا بنانے ) سے متعلق دلائل میں علمی طور پر ناقابل حل تناقضات کو مدِ نظر رکھنے کے علاوہ یہ بھی جانتے تھے کہ حکومتی عہدے خواہ نخواہ ایسے امور کا باعث بنتے ہیں جن کے نتائج فقیہ کے تقویٰ اور عدالت اور فقیہ کی فقاھت و اجتہاد کے لئے بھی خطرناک ہوتے ہیں، اس لیے وہ فقہاء کی حکومت کے خلاف تھے۔

ترجمہ: صدیق اکبر نقوی

مأخذ: «دیدگاه‌های آخوند خراسانی و شاگردانش»، مصنف اکبر ثبوت، فصل اول، تہران

صدیق اکبر نقوی حوزہ علمیہ نجف میں زیر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی حالات و نطریات پر گہری نظر رکھتے ہیں