انتخابات سے متعلق سوموٹو کیس نے پہلے دن سے کنفیوژن پیدا کر رکھی ہے۔ اگر پہلے دن ہی فل کورٹ بن جاتا تو یہ ساری قانونی پیچیدگیاں پیدا ہی نہ ہوتیں۔ آج کے فیصلے میں غیر متوقع بات محض یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں الیکشن کا معاملہ کیوں نظرانداز ہو گیا۔ پنجاب کے وکیل بھی اگر اپنا وکالت نامہ واپس لے لیتے تو کیا پنجاب میں بھی الیکشن کا معاملہ ملتوی ہو جاتا؟ جس طریقے سے یہ آرڈر آیا ہے اس پر عمل درآمد کروانا سپریم کورٹ کے لئے خاصا مشکل ہو گا۔ یہ کہنا ہے ماہر قانون صلاح الدین احمد کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کے فیصلے سے زیادہ متنازعہ اس فیصلے کو سنائے جانے کا طریقہ کار ہے۔ ضروری ہے کہ عدالت کی کارروائی شفاف ہو۔ اسی لیے پارلیمنٹ نے جو اقدام لیا ہے وہ وقت کی اہم ضرورت تھا۔ ہر روز سپریم کورٹ کا ماحول پہلے سے مختلف ہوتا ہے شاید اسی وجہ سے چیف جسٹس صاحب کو یہ فیصلہ سنانے کی جلدی تھی۔
سپریم کورٹ رپورٹر حسن ایوب خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ چیف جسٹس کے ساتھی ججز کو بھی قبول نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آئی اس بنچ کو کس بات کی جلدی تھی کہ وہ پنجاب میں تو ہر صورت میں الیکشن کروانا چاہ رہے ہیں جبکہ کے پی والا معاملہ وہیں کا وہیں چھوڑ دیا۔ چیف جسٹس سمیت سب کو علم ہے کہ 14 مئی کو الیکشن نہیں ہو سکتے تو پھر کیوں فیصلہ دیا گیا تو اس سے یہی بات سمجھ آتی ہے کہ عمران خان کو ایک بیانیہ ملے گا، چیف جسٹس نے عمران خان کو ایک بیانیہ دے دیا ہے۔ الیکشن ہوں یا نہ ہوں، عمران خان کے لئے ون ون سچویشن بن چکی ہے۔
صحافی مبشر بخاری نے کہا کہ حکومت اب اس فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن دائر کرے گی اور فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کرے گی۔ یہی مطالبہ ہمیں بلاول بھٹو کی نوڈیرو میں آج کی تقریر میں نظر آیا ہے۔ حکومت اس مرتبہ ججوں کے سامنے سرنڈر کرنے کو تیار نہیں ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینا اور شیڈول جاری کرنا اگر سپریم کورٹ نے اپنے ذمے لے لیا ہے تو الیکشن کمیشن کو ختم کر دینا چاہئیے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔