اگر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے قریب ڈیڑھ سال کو دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو اسے ایک سانحہ کہنا غلط نہیں ہوگا۔ اس ناخوشگوار سفر کا آغاز ہی خراب ہوا تھا جب انہوں نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت ازخود نوٹس لینے کے تمام اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کر لیے تھے۔ یہ اقدام تشویش ناک تھا اور اسی وجہ سے قانونی اور عدالتی حلقوں میں اس نے بہت سوں کے کان بھی کھڑے کیے کیونکہ ازخود نوٹس سے متعلق اٹھایا گیا یہ اقدام انصاف کے اس بنیادی اصول کو پامال کرتا ہے جس کے مطابق کوئی بھی شخص اپنے کیس میں خود ہی منصف نہیں ہو سکتا۔
کیونکہ ازخود نوٹس کے ضمن میں کُلی اختیار سے مستفید خود چیف جسٹس عمر عطا بندیال ہی ہو رہے تھے۔ انہوں نے جو تلوار اپنے ہاتھ میں اٹھا لی تھی، اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا کہ اس نے تینوں ریاستی اداروں کے مابین قائم توازن کو بگاڑ کر اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ یہ ننگی تلوار ایک ایسا ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی کہ قومی نفسیات پر جس کے اثرات بہت دیر تک نظر آتے رہیں گے۔
ان کے ہمیشہ شائستہ اور ہنستے مسکراتے برتاؤ نے بھی بطور قاضی القضاۃ ان کی غلط ترجیحات کو چھپانے یا انہیں درست کرنے میں کوئی مدد نہیں دی۔ ایک آئینی ادارے کو نوکر شاہی کی طرز پر چلانے کا ان کا طرز عمل غالباً ان کے گھریلو ماحول کے مرہون منت تھا۔ ان کے والد کی طرح جو کہ ایک سینیئر بیوروکریٹ تھے، بیوروکریسی میں یہ تحکمانہ انداز ایک توازن قائم کرنے میں مدد دے سکتا ہے مگر جب یہی طرز عمل ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اپنایا جائے تو لازمی طور پر اس کے اثرات سلسلہ وار تباہی کی صورت میں ہی نکلنے تھے۔ جیسا کہ بندیال دور میں ہوا۔
اس طرح کا طرز عمل ظاہر ہے کہ اداروں کے اندر تقسیم پیدا کرتا ہے جو چیف جسٹس بندیال کے کیس میں بھی ہوا۔ ججوں کے مابین اصولوں پر اختلاف رائے ہونا ایک حقیقت ہے جو کسی بھی سپریم کورٹ کا اثاثہ ہو سکتا ہے مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جسٹس بندیال کے دور میں ججوں کے مابین ناصرف یہ تقسیم گہری ہوئی بلکہ اس نے ایک ایسی خلیج پیدا کر دی جسے پاٹنا ناممکن تھا۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ان کا ڈیڑھ سالہ دور مایوس کن حد تک ان کی اپنی خطاؤں سے عبارت ہے مگر وہ اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
ان میں سب سے بڑی اور تباہ کن غلطی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے خاندان کو بے جا نشانہ بنانا تھی۔ ان کے خاندان کو جس بے رحم اور منظم انداز میں نشانہ بنایا گیا وہ ناصرف پریشان کن تھا بلکہ اس نے پاکستان کے نظام انصاف کو بھی کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا۔ اور یہ سب کچھ ان ججز کے ہاتھوں ہوا جن کا کام ہی بغیر کسی خوف یا لالچ کے آئین اور قانون کی بالادستی قائم کرنا ہے۔
قریب تھا کہ چیف جسٹس کی حیثیت سے بندیال صاحب ماضی میں سپریم کورٹ کی جانب سے کیے گئے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی حکومت الٹانے جیسے شرمناک فیصلوں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے۔ ماضی کے چیف جسٹس صاحبان کی جانب سے لیے گئے ازخود نوٹسز جن میں عوام سے پیسے اکٹھے کر کے ڈیم بنانا، کراچی میں عمارتوں کو مسمار کروانا اور فارم ہاؤسز وغیرہ پر دیے گئے فیصلے قابل اعتراض تھے لیکن یہ چیف جسٹس بندیال کے ان فیصلوں کے مقابلے میں بڑے نیک اعمال دکھائی دیتے ہیں جو انہوں نے محض اختیارات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے کیے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کے ساتھ ان کی نگرانی میں جیسے غیر منصفانہ سلوک کیا گیا، بعد میں اس پر جسٹس بندیال کی بار بار کی وضاحتوں نے اس معاملے کو مزید مضحکہ خیز بنا دیا۔ اس سے عمومی طور پر سپریم کورٹ کا تقدس بھی پامال ہوا اور جسٹس بندیال کی جانب سے لکھے گئے فیصلوں میں تضاد بھی واضح ہو گیا جیسا کہ پنجاب اسمبلی کا کنٹرول عمران خان کو سونپنے کے لئے آرٹیکل 63 اے کی مبہم تشریح کے ذریعے آئین کو ہی بدل دینا۔
ان کے اس غیر آئینی فیصلے نے ایک ایسے سیاسی بحران کو جنم دیا جس پر افسانے لکھے جا سکتے ہیں اور یہ سب کچھ بندیال سپریم کورٹ نے اپنی نگرانی میں کروایا۔ مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایسے ہی تھا جیسے کسی سائیکل ڈرائیور کو ہیلی کاپٹر کا کنٹرول دے دیا جائے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، تاریخ ہے۔
جسٹس بندیال اور ان کے ساتھی ججز نے اپنا بیش تر وقت اور توانائیاں مخالف کیمپ کے 'غیر معقول' رویے کے مقابلے میں خود کو مدبّر ثابت کرنے میں ضائع کیا۔ افسوس کہ سپریم کورٹ کو لاحق مرض کی یہ تشخیص چیف جسٹس کی اپنی اختراع ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میری کوئی غلطی نہیں! اور یہی ان کی وراثت کا خلاصہ ہے۔
جسٹس بندیال اپنی اس بظاہر خود ترحمی کے پیچھے ہی چھپے رہنا چاہتے ہیں گویا وہ خود ناقابلِ بیان مصائب میں گھرے تھے اور بڑے تدبر سے ان کا سامنا کر رہے تھے، وہ تو شاید اپنے لئے وقتِ رخصت فیض کا یہ شعر پڑھ رہے ہوں گے کہ
؎ دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
آخر میں آنے والے چیف جسٹس کے لئے ایک نصحیت: مائی لارڈ! آپ کو اچھے لفظوں میں تبھی یاد رکھا جائے گا اگر آپ نظامِ انصاف میں اصلاحات لائیں، خصوصاً سپریم کورٹ میں جیسے کہ سپریم کورٹ رولز میں فیصلہ سازی کو فل کورٹ پر چھوڑنا اور عدالتی تقرریوں میں میرٹ اور شفافیت کو مدِ نظر رکھنا۔ اور یہ محض ایک طویل فہرست میں سے دو اقدامات ہیں جو آپ کو لینا ہوں گے۔ ہمارے ڈگمگاتے معاشی و سیاسی حالات اور معاشرے میں عمومی تفاوت اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ نظامِ انصاف میں جو بھی اصلاحات لائی جائیں وہ ارتقائی ہوں اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے اصول پر مبنی ہوں۔
طارق بشیر کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو ترجمہ کیا جا رہا ہے۔