نور مقدم قتل کیس کے ملزم ظاہر جعفر کی طبعیت گزشتہ روز ناساز ہوگئی اور طعیبت خراب ہونے پر ظاہر جعفر کا پمز ہسپتال میں چیک اپ کیا گیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق ملزم ظاہر جعفر مسلسل سر درد کی شکایت کر رہا تھا جس کے بعد اسے پمز اسپتال منتقل کیا گیا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے طبی معائنہ کرنے کے بعد ان کی صحت تسلی بخش قرار دی گئی جس کے بعد پولیس نے ملزم کو واپس جیل منتقل کر دیا۔ پمز اسپتال نے ظاہر جعفر کے یہاں لائے جانے کی تصدیق بھی کی۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا پولیس کی تحویل میں تمام ملزمان کو طبی معائنے کے لئے اسپتال منتقل کیا جاتا ہے یا یہ سہولت صرف ملزم ظاہر جعفر کو دی گئی؟
نور مقدم کو بے دردی سے قتل کرنے والے ظاہر جعفر کو علاج کی غرض سے پمز اسپتال لانے پر سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو نے ظاہر جعفر کو علاج کے لئے پمز اسپتال لانے پر سوالات اٹھائے، تشویش کا اظہار کیا اور اسے طاقت کا ناجائز استعمال قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ظاہر جعفر امیر ہونے کی وجہ سے اثرورسوخ استعمال کر رہا ہے باوجود اس کے کہ وہ انتہائی خطرناک جرم کا مرتکب ہوا ہے۔
https://twitter.com/fbhutto/status/1422845905120776193
نیا دور میڈیا نے اس حقیقت کو جاننے لے لئے کرائم رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور قانونی ماہرین سے بات کی۔
واضح رہے کہ دو ماہ پہلے اسلام آباد پولیس کی تحویل میں جاں بحق ہونے والے دِیر کے ایک نوجوان کو تشدد کرنے کے بعد اسپتال منتقل نہیں کیا گیا تھا اور جیل میں ان کو عارضی طبی ریلیف دیا گیا تھا لیکن ملزم ظاہر جعفر کو یہ سہولت کیوں دی گئی، اس پر سوشل میڈیا پر آوازیں اٹھ رہے ہیں۔
اسلام آباد میں رہائش پذیر قانونی ماہر ایڈووکیٹ مفید خان یوسفزئی کہتے ہیں کہ علاج تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اگر ایک کیس ابھی ٹرائل کے مرحلے میں ہو اور ملزم کی طبعیت خراب ہو جائے تو پھر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کو طبعی سہولت دی جائے اور ظاہر جعفر کے کیس میں بھی وہی ہوا اور ان کا طبعی معائنہ کیا گیا۔
گذشتہ دو دہائیوں سے کرائم رپورٹنگ کرنے والے صحافی راجہ کاشف نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ جب بھی کوئی ملزم پولیس کی حراست میں ہوتا ہے اور اس کی طبیعت خراب ہوتی ہے تو پولیس پر قانونی طور پر لازم ہے کہ وہ ملزم کو کسی بھی سرکاری اسپتال منتقل کر کے اس کا طبی معائنہ کروائے۔ تاہم، یہ فیصلہ ڈاکٹرز نے کرنا ہے کہ ملزم کو واپس جیل بھیجنا ہے یا پھر اسپتال میں داخل کرنا ہے اور یہ باضابطہ قانون ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر نور مقدم کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو دیکھا جائے تو مبینہ طور پر وہ منشیات کا عادی ہے اور اب پولیس کی تحویل میں منشیات نہ ملنے کی وجہ سے اسے تکلیف ہے اور اس دن بھی اس کے سر میں شدید تکلیف تھی اس لئے اسے اسپتال منتقل کیا گیا۔ راجہ کاشف کے مطابق اگرپولیس ملزم کو اسپتال منتقل نہ کرتی اور ملزم کی طبعیت زیادہ خراب ہو جاتی تو کل کو ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی۔
نیا دور میڈیا نے اس حوالے سے اسلام آباد پولیس کا سرکاری مؤقف جاننے کی کوشش کی مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔