کتاب: سنگ دوست
طرز: شخصی خاکے
مصنف: اے حمید
سنگ دوست اے حمید صاحب کی بے حد اہم کتابوں میں سے ایک ہے۔ یہ کتاب مختلف ادبی شخصیات کے خاکوں پر مبنی ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1984 میں لاہور میں شائع ہوا۔ اس کتاب کی صرف سو کاپیاں ہی چھپی تھیں۔
یہ کتاب اس لئے بھی دلچسپ ہے کیونکہ اے حمید صاحب نے تیس کے قریب ادبی شخصیات کا خاکہ اس طرح بیان کیا ہے کہ ان کا ادب سے تعلق اور ادب کے لئے کی گئی خدمات کا اندازہ بھی ہو سکے اور وہ تمام تر لوگ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے کیسے تھے یا اے حمید صاحب نے ان سب کو ایک دوست کی حیثیت میں کیسا پایا یہ راز بھی قاری تک خوبصورت انداز میں پہنچ سکے۔
اس کتاب کی ایک اور اہم بات اس میں استعمال ہونے والی خالص خوبصورت اردو ہے۔ اے حمید صاحب اس بات کو ماننے سے انکاری نظر آئیں گے لیکن وہ خوبصورت خالص اردو لکھنے والوں میں سے تھے۔
اس کتاب میں اردو ادب کے کامیاب اور بھرپور عروج کے دنوں کا ذکر بھی بارہا کیا گیا ہے۔ اے حمید لکھتے ہیں، "ہم اخباروں میں لکھتے، رسالوں میں لکھتے۔ ہماری کتابیں یکے بعد دیگرے چھپ رہی تھیں۔ مشاعرے ہوتے، معرکے ہوتے، ادبی انجمنوں کے ہنگامہ خیز اجلاس ہوتے۔ بحثیں ہوتیں۔ کہیں سیاست چلتی، کہیں ادب چلتا، مذاکرے ہوتے، مناظرے ہوتے۔ ایک ہنگامہ تھا۔ ایک جشن تھا۔ کوئی کسی جگہ نوکر نہیں تھا۔ کوئی کسی کا غلام نہیں تھا۔ کسی پر کسی کا حکم نہیں چلتا تھا۔ ہر کوئی آزاد تھا، بات کہنے میں خود مختار تھا۔ جیب خالی بھی ہوتی جیب بھر بھی جاتی۔ بہترین سگریٹ پیتے، بہترین کپڑے پہنتے، بہترین چائے اور کافی پیتے، بہترین باتیں کرتے۔ شہر لاہور کی سڑکوں، گلی کوچوں میں آوارہ بھی پھرتے اور راتوں کو گھروں میں بیٹھ کر کہانیاں بھی لکھتے، طویل نظمیں اور مسلسل غزلیں بھی کہتے۔
سورج ہمارے سامنے صبح کو طلوع ہوتا۔ چاند ہمیں سڑکوں پر راتوں کو آوارہ پھرتے دیکھ کر غروب ہوتا۔
ایک خواب تھا، وہ عہد! رنگ، خوشبو، حرکت، خیال اور زندگی سے بھرپور خواب!۔۔"
یہ کتاب ہمیں صرف ان شخصیات کے بارے میں دلچسپ باتیں ہی نہیں بتاتی بلکہ یہ کتاب ہمیں 1947 سے پہلے کے ہندوستان کا حال بھی بتاتی ہے۔ اے حمید کے قلم کا ہی جادو ہے کہ قاری کبھی امرتسر کی گلیوں میں گول گپے کھانے کی خواہش کرنے لگے گا اور کبھی اس کا دل لاہور کے کافی ہاؤس میں بیٹھ کر کافی پینے کو مچل جائے گا۔
کبھی پڑھتے پڑھتے وہ دہلی کے موسم کی خنکی کو اپنے اندر اترتا محسوس کرے گا اور کبھی وہ خود کو لاہور کی محبت میں گرفتار پائے گا۔
یہ کتاب قاری کو لاہور سے محبت میں غرق کر دینے کے لئے کافی ہے۔ اس کتاب میں 1980 سے پہلے کے لاہور کی خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے۔ وہ لاہور جو ادبی نشستوں کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ جہاں رات گئے کافی ہاؤس اور پاک ٹی ہاؤس میں ادبی بحث و مباحث ہوا کرتے تھے۔ جب اختلاف صرف نظریاتی ہوتا تھا۔ جب نظریاتی اختلاف کی بنا پر شخصیت پر ذاتی حملوں کا رواج عام نہ تھا۔ وہ لاہور جو بے حد پرسکون تھا۔ جہاں دن رات اردو ادب کی خدمت کرنے والے ادب لطیف، سویرا اور نقوش جیسے ادبی پارے ترتیب دینے کے لئے دن رات محنت کرتے تھے۔
اس کتاب میں تیس شخصی خاکے موجود ہیں۔ ابن انشاء پر لکھا خاکہ بے حد خوبصورت اور دلچسپ ہے۔ یہ میرا پسندیدہ خاکہ ہے۔ فیض صاحب کی شخصیت بھی بے حد خوبصورتی سے بیان کی گئی ہے۔ فیض صاحب کے خاکے میں ادب اور احترام کی ایک جھلک ہے۔ قاری یہ خاکہ پڑھ کر باآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اے حمید، فیض اور انکی نظموں سے عشق کرتے تھے اور انکا بے حد احترام کرتے تھے۔
ابراہیم جلیس، احمد راہی اور قدرت اللہ شہاب پر لکھے خاکے محبت اور دوستی کی لازوال کہانی لگتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی پسندیدہ شاعر یا کہانی کار تھے یا نہیں یہ نہیں کہا جا سکتا لیکن اے حمید انکی شخصیت سے کس قدر متاثر تھے اسکا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔
اے حمید کہیں کہیں ان خاکوں میں جذباتی ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جسے کوئی سطر لکھتے لکھتے انکی آنکھیں نم ہو گئی ہونگی اور وہ نمی کہیں کاغذ میں جذب ہو کر تحریر میں ایک جذباتی الاؤ پیدا ہونے کا باعث بنی ہے۔
یہ کتاب 1984 کے بعد اب دوبارہ شائع ہوئی ہے۔ اٹلانٹس پبلیکیشنز نے اسے چھاپا ہے۔
اس کتاب کی دوبارہ اشاعت بھی ایک پوری کہانی ہے۔ راشد اشرف صاحب نے پرانی کتابوں کو، ایسی کتابوں کو جو 1950 سے 1980 کی دہائی میں شائع ہوئیں اور اب کمیاب ہیں یا بالکل دستیاب نہیں، کی دوبارہ اشاعت کا بیڑا اٹھایا۔ اب تک اس سلسلے کی تیس کتب شائع ہو چکی ہیں۔ مزید پر کام جاری ہے۔ ان کتابوں کی دوبارہ اشاعت کے لئے مختلف ادیبوں کے گھر والوں سے تحریری اجازت نامے بھی لیے گئے اور انہیں "زندہ کتابوں" کا نام دیا گیا۔
سنگ دوست انہی "زندہ کتابوں" کی سولہویں کتاب ہے۔
یہ کتاب ہر لحاظ سے ایک دلچسپ اور نایاب کتاب ہے۔ ایسی کتاب کتب بینی کا شوق رکھنے والوں کی لائبریری میں ضرور شامل ہونی چاہیے۔
مصنفہ کا تعلق کراچی سے ہے۔ ابلاغِ عامہ میں گریجویٹ ہیں، ادب سے شغف ہے، کتابوں پر تبصروں کے ساتھ ساتھ سماجی معاملات پر لکھتی ہیں۔ آمنہ آرٹ، فن، ثقافت اور رقص میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔