کچھ دن پہلے ایک مارچ ہوئی جس میں ملک بھر کے طلبہ یک آواز ہوئے اور ریاست سے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا۔ اس مارچ کو Student Solidarity March کا نام دیا گیا۔ ان طلبہ کا اپنے حقوق کے لئے نکلنا اور سٹوڈنٹ یونین کا مطالبہ کرنا ٹھیک ہے یا غلط یہ ایک الگ بحث ہے۔
یہاں بات ایک تقریر کی کرتے ہیں جس میں ایک طالب علم عالمگیر وزیر کچھ مطالبات کرتا ہے۔ عالمگیر وزیر کی تقریر میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ ہم پر اردو زبان مسلط کی گئی ہے جو ہمیں نامنظور ہے۔ ہمیں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔ عالمگیر کے اس بیان کو وفاقی حکومت کے ایک وزیر نے جہالت سے تشبیہہ دی ہے۔ یہاں پر اس مطالبے کا سائنسی اور تعلیمی جائزہ لیتے ہے کہ کیا یہ مطالبہ واقعی جہالت ہے؟
لسانیات (Linguistics)، سوشل سائنسز کی ایک شاخ ہے۔ لسانیات کے مطابق بچہ جو پہلی زبان سیکھتا ہے اس کو مادری زبان کہا جاتا ہے۔ جب وہ کوئی دوسری زبان سیکھتا ہے تو اس کو Second Language کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد جو زبان سیکھتا ہے اس کو Foreign Language کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں عام طور پر ایک طالب علم کو تین زبانیں سیکھنی پڑھتی ہیں، چاہے وہ پنجابی ہو، سندھی ہو، بلوچی ہو، پشتون ہو یا کوئی اور۔
وہ تین زبانیں ہیں:
(ا) مادری زبان (جو پشتون کی پشتو ہوتی ہے، بلوچ کی بلوچی، پنجابیوں کی پنجابی اس طرح اور سب کی بھی۔)
(ب) دوسری زبان اردو ہے، جو بچپن سے میڈیا کے ذریعے ہم سیکھتے ہے یا سکول میں سیکھتے ہیں۔
(ت) انگریزی زبان، جو دسویں تک کی تعلیم کے بعد لازمی ہے۔
سوائے وہ لوگ جن کی مادری زبان اردو ہو، وہ صرف دو زبانیں سیکھتے ہے۔ ایک اردو اور دوسری انگریزی۔
چلو اب لسانیات کی ہی ایک شاخ کا ذکر کرتے ہیں، جس کو Psycho-Linguistics کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق 6 یا 7 سال تک بچے کو اپنی "مادری زبان" میں ہی تعلیم دی جائے، اگر ان سالوں میں بچے کو دوسری زبان میں تعلیم دی جائے تو یہ بچے کی سیکھنے کو عمل کو برباد کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی بچہ دوسری زبان آسانی سے سیکھ سکتا ہے، جیسے کہ ہم نے اردو سیکھی ہوئی ہے۔ کیونکہ بچے کا دماغ complexities and challenges کو قبول کرتا ہے۔ لیکن، جب بچہ چودہ، پندرہ سال کا ہو جاتا ہے تو اس کے لئے تیسری زبان سیکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے تعلیمی نظام میں ہے کہ جو لوگ دیہاتی علاقوں کے ہوں، چاہے وہ پشتون ہو یا پنجابی ان کو انگریزی میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکثر نوجوان جو دوسرے مضامین میں تو کافی ذہین ہوتے ہیں لیکن ان کو انگریزی میں مسئلہ ہوتا ہے۔
لسانیات ہی کے مطابق، کوئی زبان چھوٹی یا بڑی، میٹھی یا کڑوی نہیں ہوتی بلکہ سب زبانیں یکساں ہیں۔ لیکن تعلیمی اور ثقافتی لحاظ سے اس کے فائدے اور نقصانات ضرور ہوتے ہیں۔ لسانیات ہی کی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ جو لوگ اپنے مادری زبان سے محروم ہوتے ہیں وہ پراعتماد نہیں ہوتے۔ جس سے ان کے سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ دنیا اس لئے خوبصورت ہے کیونکہ رنگ برنگی ہے۔ ذرا سوچئے! کہ اگر دنیا میں سب لوگ ایک ہی شکل کے ہوتے، سب درخت ایک جیسے ہوتے۔ سب جانور ایک جیسے ہوتے، دنیا میں صرف ایک ہی رنگ ہوتا، تو یہ دنیا کیسی لگتی؟ اسی طرح اگر ایک ہی زبان ہوتی۔ چاہے وہ عربی ہو، انگریزی ہو یا اردو تو کیسے لگتا؟ اگر قدرت نے دنیا کو ایک ہی رنگ میں بنانا ہوتا تو بنا دیتا، نہ ہی مختلف زبانیں ہوتی نہ ہی قومیں۔ یہی تو حوبصورتی ہے اس دنیا کی کہ اس میں مختلف رنگ، ثقافتیں ،تہذیبیں ہیں۔
“Diversity is a beauty while similarity is ugly.”
اب آتے ہیں اردو کی طرف، بطور قومی اور تعلیمی زبان، اردو کا ہمارے ملک میں ایک ہی فائدہ ہے اور وہ ہے بول چال، اردو کے ذریعے ہمارے ملک کے مختلف لسانی گروہ آپس میں ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں، جو بہت ہی فائدہ مند بات ہے۔ لیکن تعلیمی لحاظ سے اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ نہ تو ملک کا ہائر ایجوکیشن سسٹم اردو زبان میں ہے، نہ ہی اردو کی بنیاد پر کوئی نوکری ملتی ہے۔
دوسری طرف ٹیکنالوجی کا زیادہ تر دارومدار انگریزی پر ہے۔ اس لئے انگریزی زبان کو تعلیم سے ختم کرنے کا مطلب ترقی کے بجائے مزید تنزلی کا شکار ہونا ہے۔ اس کے برعکس اگر انگریزی دوسری لینگوئج بن جائے، تب بھی اردو As Foreign Language بعد میں سیکھی جا سکتی ہے۔ اب آپ کے ذہن میں ایک سوال ضرور ابھرا ہوگا کہ چونکہ اوپر کہا گیا ہے کہ کسی شخص کے لئے پندرہ برس کی عمر کے بعد تیسری زبان سیکھنا مشکل ہو جاتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہو گا کہ اردو بعد میں سیکھی جا سکتی ہے؟
تو چلو اب لسانیات کے ہی ایک ماہر Noam Chomsky کی تھیوری کا حوالہ دیتے ہیں جس کو cognitive/mental/chomskian Theory کہا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی بھی بندہ کوئی بھی زبان سیکھ سکتا ہے، جب اس بندے کو اس زبان کے ماحول میں جوڑا جائے۔ جہاں پر زیادہ تر وہی زبان بولی جاتی ہو، چاہے وہ پچاس سال کا ہو یا نوے سال کا۔ اس کی مثال ہمارے معاشرے میں موجود ہے، جو لوگ مزدوری کے لئے گلف ممالک جاتے ہیں، وہ وہاں پر عربی سیکھ جاتے ہیں۔ اسی طرح اردو بعد میں بھی سیکھی جاسکتی ہے کیونکہ اردو کا ماحول ہمارے ملک میں ہے لیکن انگریزی بعد میں بڑی عمر میں نہیں سیکھی جا سکتی کیونکہ یہاں پر انگریزی کا ماحول نہیں ہے۔
یہ بات ضروری ہے کہ چاہے دوسری زبان انگریزی ہو یا اردو، اس کو کبھی بھی مادری زبان پر فوقیت نہیں دینی چاہیے۔ پشتو کا ایک شعر ہے:
بله ږبا زده کول لوئي کمال ده,
خپله ږبا هيرول بې کمالي ده
ترجمہ: دوسری زبان سیکھنا بڑا کمال ہے لیکن اپنی بھول جانا ایک افسوس ہے ایک لعنت ہے۔
کسی پر اپنی زبان مسلط کرنا Colonization کے زمرے میں بھی آتا ہے۔ یہ ایک بد ترین سوچ اور آئیڈیالوجی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔