واجد ضیاء انسپکٹر جنرل (آئی جی) ریلوے پولیس کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
وفاقی حکومت نے گریڈ 21 کے افسر اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیاء کو بشیر میمن کی جگہ ڈی جی ایف آئی اے تعینات کیا ہے۔ واجد ضیاء انسپکٹر جنرل (آئی جی) ریلوے پولیس کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
تاہم اہم سوال یہ ہے کہ واجد ضیا پاناما کیس میں کچھ بھی ثابت نہ کرسکے تھے۔ ایسی کیا وجوہات ہیں جس کی بناء پر انہیں اہم جگہ تعینات کیا گیا؟ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ واجد ضیاء نے نوازشریف نااہلی کیس میں جانبداری کا مظاہرہ کیا جس کی بناء پر انہیں یہ عہدہ دیا گیا ہے۔
مبشر زیدی نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’خوش قسمت ہیں واجد ضیا جیسے لوگ جن کو جے آئی ٹی کی اربوں روپے کی تحقیقات میں سے ایک اقامہ نکالنے پر ڈی جی ایف آئی اے بنا دیا گیا‘۔
صحافی عمر چیمہ نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’کل ایک پی ٹی آئی کے راہنما سے بات ہوئی اس کا کہنا تھا کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی مزید برآں یہ کہ لوگ 9-8 ماہ ہٹلر کو بھول جائیں گے‘۔ کیا یہ تعیناتی اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے؟
https://twitter.com/UmarCheema1/status/1201534694879301632?s=20
سینئر صحافی عارف حمید بھٹی نے کہا ’’ واجد ضیاء کو وائٹ کالر کرائم کی الف ب کا پتہ نہیں، انہیں شریف خاندان اور اپوزیشن کے خلاف انتقامی کاروائی کیلئے یہ عہدہ دیا گیا ہے‘‘
تجزیہ نگاروں کے مطابق واجد ضیا کی کارکردگی ہرگز ایسی نہیں تھی کہ انہیں اہم عہدے پر تعینات کیا جاتا جب کہ پاناما جے آئی ٹی رپورٹ تجزیوں اور آراء پر منبی تھی، اس میں حقائق کو مسخ کیا گیا اور کسی بھی چیز کو ثابت نہیں کیا گیا، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے حدود سے تجاوز بھی کیا۔ پاناما کیس کی تحقیقاتی ٹیم کا صرف ایک بات پر اصرار رہا کہ شریف خاندان آمدن سے زائد اثاثوں کا مالک ہے جبکہ اس حوالے سے خود جے آئی ٹی کوئی شواہد اکھٹی نہیں کرسکی نہ ہی سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم کو جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر نااہل کیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا واجد ضیا کو اپوزیشن کے خلاف کیسز بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
جے آئی ٹی تشکیل کے وقت ہی متنازع ہو گئی تھی
جے آئی ٹی کی تشکیل اور کارکردگی کے بارے میں کئی مسائل سامنے آئے جنہوں نے اس پورے مرحلے پر شکوک و شبہات کو جنم دیا
حسین نواز کی اس کمرے سے لیک ہونے والی ایک سی سی ٹی وی فوٹو سامنے آئی، جہاں جے آئی ٹی اپنی انکوائری کر رہی تھی۔ اس تصویر نے سیاسی اور ابلاغی منظرنامے پر تہلکہ مچا دیا۔ اس حوالے سے جے آئی ٹی کی جانب سے کوئی تاویل سامنے نہیں آئی کہ یہ تصویر منظرِ عام پر کیسے آئی، سوال پیدا ہوا جے آئی ٹی کی کارروائی خفیہ انداز میں کیوں ریکارڈ کی گئی ۔ اور یہ کہ اس کی ریکارڈنگ کہاں محفوظ تھی اور کون کون ان تک رسائی رکھتا تھا۔ بطور سربراہ واجد ضیاء معاملے کی شفافیت برقرار رکھنے میں ناکام رہے
جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے ارکان فراہم کرنے والے اداروں سے رابطے کا معاملہ بھی وضاحت طلب رہا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=YnzTL9-0xpA
جبکہ جے آئی ٹی پر یہ بھی الزام رہا ہے کہ انہوں نے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے مختلف اداروں کو اپروچ کیا اور ان پر شواہد کی فراہمی کے لیے دباؤ ڈالا۔
پاناما جے آئی ٹی کے اختیارات اور کام
اس کمیٹی کو شریف خاندان کے غیر ملکی اثاثوں کی تفتیش کی خاطر ملکی اور غیر ملکی ماہرین کی خدمات کے لیے مکمل اختیارات دیے گئے۔
جے آئی ٹی کے کام کرنے کے لیے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کی عمارت کا ایک حصہ دے گیا اور اس کے کام کے لئے دو کروڑ روپے بھی مختص کیے گئے۔ ہر دو ہفتے بعد یہ کمیٹی پیش رفت سے سپریم کورٹ کو آگاہ کرنے کی پابند تھی۔ اور تمام تر تفتیش ہر حال میں ساٹھ روز میں مکمل ہونا تھی۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں کیا تھا؟
وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا کہ نوازشریف اور ان کے بچوں کے رہن سہن اور معلوم آمدن میں بہت فرق ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس ضمن میں وزیراعظم اور ان کے بچوں کو بلایا گیا اور ان کے بیانات سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ ان کے طرززندگی اور معلوم آمدن میں بہت فرق ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مدعا علیہان تحقیقاتی ٹیم کے سامنے رقوم کی ترسیل کے ذرائع نہیں بتا سکے۔
https://www.youtube.com/watch?v=KFB9IsDeAbw
اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بھاری رقوم کو قرض یا تحائف کی صورت میں دینے سے متعلق بے قاعدگیاں پائی گئیں۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ اس ضمن میں جب حسن نواز اور حسین نواز سے رقوم کے بارے میں دریافت کیا گیا تو وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا کہ مدعا علیہان کی برطانوی کمپنیاں شدید نقصان میں ہونے کے باوجود بھاری رقوم کی ترسیل میں ملوث تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس لئے استعمال ہو رہی تھیں تاکہ ایسا محسوس ہو کہ ان برطانوی کمپنیوں کے کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم کی مدد سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئی ہیں۔
جے آئی ٹی پر ہونے والے اعتراضات کے دوران جرح، اور واجد ضیا کے اعترافات
اعتراض سامنے آیا کہ جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کے حوالے سے فرانزک ریکارڈ اور دیگر دستاویزات حاصل کرنے میں متعلقہ کرمنل پروسیجر کوڈ کی خلاف ورزی کی اور متعلقہ حکام کا بیان بھی قانونی طریقہ کار سے ریکارڈ نہیں کیا گیا تھا۔
واجد ضیا نے احتساب عدالت میں اپنی پیشیوں کے دوران اعتراف کیے کہ نواز شریف کے آف شور کمپنیوں، لندن فلیٹس، العزیزیہ اسٹیل ملز کی ملکیت کی کوئی دستاویز نہیں ملی۔ واجد ضیا نے کہا کہ موساک فونیسکا نے بھی نواز شریف کے ان کمپنیوں کے بینی فیشل اونر ہونے کی کوئی ایسی معلومات نہیں دی، قطری خط میں بھی ان کا نام نہیں، گلف اسٹیل ملز کی فروخت کی رقم کے لین دین میں شامل نہیں تھے۔
سپریم کورٹ کے پاناما کیس فیصلے کی روشنی میں نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز، فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور ایون فیلڈ ریفرنسز دائر کیے۔ جس میں سے وہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں بری ہو چکے ہیں جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں انہیں سزا ہوئی تاہم احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد یہ کیس بھی متنازع ہو چکا ہے۔
سوال بنتا ہے کہ بطور جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا تو پھر انہیں کس بنیاد پر انہیں اہم ذمہ داری سونپی گئی۔
https://www.youtube.com/watch?v=9x1Lx8iHNkY
احتساب عدالت میں دوران سماعت واجد ضیاء اعتراف کر چکے ہیں کہ ’دستاویزی ثبوت نہیں جو ظاہر کریں کہ نواز شریف نے العزیزیہ کی کسی دستاویز پر کبھی دستخط کیے ہوں۔ انہوں نے کہا ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جو نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل مل کا شیئر ہولڈر یا ڈائریکٹر ظاہر کرے یا وہ یہ کہ وہ اس کے مالی معاملات دیکھتے ہیں‘۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس کی سماعت کے دوران واجد ضیا کی پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا مسترد کر دی تھی۔
https://www.youtube.com/watch?v=trpPSyJWhYE
https://www.youtube.com/watch?v=Xy5QuF9E7eM
بشیر میمن نے استعفیٰ کیوں دیا؟
ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے ریٹائرمنٹ سے پہلے استعفیٰ حکومتی دباؤ کے باعث دیا۔ ان پر دباؤ تھا کہ وہ اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کارروائی کریں۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیو کے پروگرام میں صحافی زاہد گشکوری نے بشیر میمن کے استعفے کے پیچھے چھپی کہانی بیان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے یہ استعفیٰ اہم کیسز میں اعلیٰ حکام کی مداخلت کی وجہ سے دیا۔
اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے زاہد گشکوری نے بتایا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے اپنی 35 سالہ سروس سے استعفیٰ دیا ہے، اس کے پیچھے 6 مہینے کی ایک کہانی چھپی ہے۔
صحافی نے بتایا کہ جب جج ارشد ملک ویڈیو سکینڈل کیس ایف آئی اے کے پاس آیا تو ایف آئی اے، ڈی جی بشیر میمن کی سربراہی میں تحقیقات کر رہی تھی۔ اس دوران اعلیٰ حکام ان سے پیغامات کے ذریعے رابطہ کر رہے تھے۔
کیس کے دوران اعلیٰ حکام ایف آئی اے سے دن بدن تفصیلات لیتے تھے اور جب کیس میں نامزد ملزم ناصر جنجوعہ کی ضمانت ہوئی تو اس پر حکومتی اعلیٰ عہدیدران کی جانب سے غصے کا اظہار کیا گیا تھا اور بشیر میمن کو کیس نئے سرے سے تیار کرنے اور دہشتگردی کی دفعات لگانے کا کہا گیا تھا۔ بشیر میمن کو تحقیاتی ٹیم بدلنے کا بھی کہا گیا تھا۔
25312/
زاہد گشکوری کے مطابق اس کے علاوہ اور کئی مقدمات میں بھی اُن پر اعلیٰ حکام کا براہ راست پریشر تھا اور یہ وہ ساری چیزیں تھیں جو 6 مہینے سے چل رہی تھیں۔
ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا۔ ان پر اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کارروائی کیلئے حکومت کی طرف سے کیا دباؤ تھا؟ جج ارشد ملک کیس میں حکام نے کیا دباؤ ڈالا۔ جانئے زاہد گشکوری سے pic.twitter.com/NYlHXdbiYv
— Shahzeb Khanzada (@shazbkhanzdaGEO) December 2, 2019
یاد رہے کہ کچھ روز قبل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے سروس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
انہوں نے اپنے استعفے میں لکھا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے قریب پوسٹنگ نہ دینے کا مطلب ناراضگی کا اظہار ہے اور اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ نوکری سے مستعفی ہو جاؤں۔
یہ تمام معاملات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ واجد ضیاء لامحدود اختیارات کے باوجود پانامہ لیکس میں سے کچھ نہیں نکال سکے۔ انہوں نے لمبی تحقیق کے دوران مفروضوں پر اکتفاء کیا جو حقائق کے برعکس تھے۔ لمبے عرصے تک قوم کو ہیجان میں رکھا گیا جس سے قیمتی وقت اور پیسہ برباد ہوا۔
واجد ضیا کی اہم تحقیقاتی ادارے میں بطور سربراہ تعیناتی کئی سوالات کو جنم دے رہی، ماضی میں انہیں جو کام سونپا گیا وہ اس میں ناکام ہوئے۔ کیا ان کی ایف آئی اے میں تعیناتی کارکردگی کی بنیاد پر کی گئی ہے یا انہیں اپوزیشن کے خلاف کیسز بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔