نواز شریف کے علاج کی غرض سے لندن جانے کے بعد سے مریم نواز کی مسلسل خاموشی نے یہ سوال پیداکیا ہے کہ کیا نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ترک کر دیا ہے؟ کیا نواز شریف نے ہار مان لی ہے؟ اس سوال کے جواب کے لئے آپ کو نواز شریف کی سیاسی زندگی کے تاریخی حقائق کھنگالنے ہونگے۔
1981میں صدر جنرل ضیاالحق نے نواز شریف کو جنرل جیلانی کی سفارش پر پنجاب کا وزیرخزانہ تعینات کیا اور پھر بعد میں 1985 کے غیرجماعتی انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف اس وقت کے آرمی چیف اور صدر ضیا الحق کی حمایت سے پہلی مرتبہ پنجاب کے وزیراعلی بنے۔
ضیا الحق کے طیارہ حادثے میں انتقال کے بعد اس وقت کے سینیٹ چیئرمین غلام اسحاق خان پاکستان کے قائم مقام صدر بن گئے اور پھر 1988 کے انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی اور بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور نواز شریف دوبارہ پنجاب کے وزیراعلی منتخب ہو گئے۔
کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سے اس شرط پر معاملات طے کیے تھے کہ انتخابات کے بعد انہیں مستقل صدر منتخب کیا جائے گا پھر بعد میں ایسا ہی ہوا نواز شریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد اور پیپلز پارٹی کی حمایت سے غلام اسحاق خان پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔
غلام اسحاق خان ضیاالحق کے جانشین اور بابائے اسٹیبلشمنٹ کے طور پر بھی جانے جاتے تھے اور آئین کی شق58,2Bکی موجودگی میں کافی طاقتور سمجھے جاتے تھے جب انہوں نے1990 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کیا تو مقتدر قوتوں کا دست شفقت نواز شریف پر پڑا جس کی وجہ سے 1990 کے عام انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف پہلی بار پاکستان کے وزیراعظم بنے لیکن جلد ہی نواز شریف خود کو وزیراعظم سمجھنے بھی لگے تو صدر غلام اسحاق خان سے اختلافات پیدا ہو گئے جس کے نتیجے میں ان کی حکومت کو بھی غلام اسحاق خان نے برطرف کر دیا لیکن نواز شریف نے آسانی سے ہار نہیں مانی وہ جمالی نہیں بنے نہ وہ ماضی کے دوسرے وزرائے اعظم کی طرح چپ چاپ گھر گئے بلکہ وہ اپنی حکومت کی بحالی کے لئے قانونی جنگ لڑنے سپریم کورٹ گئے اور وہاں سے حکومت بحال کروالی لیکن چونکہ اس وقت ان کی جماعت آج کی تحریک انصاف کی مانند تھی جس پر بظاہر نواز شریف کا لیکن دراصل مقتدر حلقوں کا کنٹرول تھا اور دوسرا بیورو کریسی پر غلام اسحاق خان کا بھرپور کنٹرول ہونے کی وجہ سے نواز شریف نے حکومت کے بجائے نئے الیکشن کا راستہ چنا لیکن مفت میں استعفی پیش نہیں کیا بلکہ اپنے استعفی کو صدر غلام اسحاق خان کے استعفی اور نئے انتخابات سے مشروط کر کے ان کی بھی چھٹی کروا دی ورنہ غلام اسحاق خان تو اگلی مدت کے لئے بھی صدرمنتخب ہونے کی خواہش رکھتے ہونگے۔
1993 میں اپنی حکومت کی برطرفی کے بعد سے نواز شریف ایک عوامی لیڈر کے طور ابھر کر سامنے آئے 1981 سے 1993 تک نواز شریف کو مقتدر حلقوں کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت حاصل رہی لیکن اس کے بعد نواز شریف اور مقتدر حلقوں کے تعلقات ضرورت اور مجبوری کے ماتحت بنتے اور بگڑتے رہے۔ مقتدر حلقوں کے لئے نواز شریف پیپلزپارٹی کے متبادل کے طور پر اور پیپلزپارٹی کی طاقت کم کرنے کے کام آئے اور نواز شریف کے لئے مقتدر قوتیں اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی کی شکل اختیار کر گئیں۔
اور پھر 1993 میں نئے عام انتخابات ہوئے جس میں نواز شریف کی جماعت39.9 فیصد ووٹوں کے ساتھ سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت تھی لیکن 37.9 فیصد ووٹوں کے ساتھ نشستوں کے لحاذ سے پیپلزپارٹی بڑی جماعت بن کر سامنے آئی جس سے یہ بات تمام حلقوں پر واضح ہو گئی کہ نواز شریف ایک مقبول عوامی لیڈر بن چکے ہیں۔
1993 کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی سادہ اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی، پھر پیپلز پارٹی نے فاروق لغاری کو صدر منتخب کر لیا لیکن بعد میں فاروق لغاری اور بے نظیر بھٹو کے درمیان اختلافات ہو گئے جس پر صدر لغاری نے پیپلزپارٹی کی حکومت کو برطرف کر دیا جس کے بعد پھر سے نواز شریف اور مقتدر قوتوں میں قربتیں بڑھ گئیں لیکن اس بار کی قربتیں ایک دوسرے کی محبت میں نہیں بلکہ مکمل طور پر مجبوری کی حالت میں دستیاب متبادل اور بغض پیپلزپارٹی کے نتیجے میں تھی۔
1997 کے عام انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ دو تہائی اکثریت ہونے کی وجہ سے نواز شریف خود کو بہت طاقتور اور بااختیار وزیراعظم سمجھنے لگے اور جلد ہی آئین سے 58-ٹو۔بی کا خاتمہ کر کے فاروق لغاری کی جگہ رفیق تارڑ کو صدر منتخب کروا لیا اور جنرل مشرف کو آرمی چیف تعینات کر دیا جس کے بعد نواز شریف پاکستان کی تاریخ کے سب سے طاقتور وزیراعظم بن کر ابھرے لیکن پھر کارگل جنگ کی وجہ سے نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان اختلافات ہو گئے جس کے بعد نواز شریف کارگل جنگ کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے کی خواہش رکھتے تھے اور اس مقصد کے لئے وہ نیا آرمی چیف لانا چاہتے تھے، اپنی اس کوشش میں وہ ناکام ہوئے اور جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دیا اور بعد میں نواز شریف کو طیارہ ہائیجیکنگ کیس میں سزا ہوئی اور وہ جلاوطن کر دیئے گئے۔
2007 میں جب مشرف کے اقتدار کا زوال شروع ہوا تو امریکہ کے دباؤ پر جنرل مشرف نے بے نظیر کے ساتھ معاملات طے کر کے این۔آر۔او جاری کیا تو مقتدر قوتوں نے نواز شریف کو بھی وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ کہا جاتا ہے کہ نواشریف کو وطن واپسی کی اجازت صرف اس لئے دی گئی تاکہ پیپلزپارٹی بھرپور اکثریت حاصل نہ کر سکے یہی وجہ ہے کہ این۔آر۔او کے ذریعے 12 اکتوبر 1999 سے پہلے کے تمام سیاسی مقدمات ختم کر دیئے گئے جس کا زیادہ فائدہ پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کو ہوا لیکن 12 اکتوبر 1999 کے بعد مشرف کی جانب سے نواز شریف پر بنائے گئے مقدمات اور سزائیں برقرار رکھی گئیں بظاہر جس کی وجہ نواز شریف کو کنٹرول کرنا تھا اور بعد میں یہی ہوا کہ نواز شریف کو ڈوگر کورٹس کے ذریعے سیاست سے نااہل کروانے کی کوشش بھی کی گئی جو نواز شریف نے افتخار چوہدری اور دیگر ججز کی بحالی کے لئے لانگ مارچ کر کے ناکام بنا دی جس کے بعد نواز شریف کو دباؤ میں رکھ کر کنٹرول کرنے اور اقتدار سے دور رکھنے لئے عمران خان کو سامنے لایا گیا لیکن پھر بھی 2013 میں ن لیگ نے بھاری اکثریت سے میدان مارا اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہو گئے۔
ایک بار پھر نواز شریف نے وزیراعظم منتخب ہوتے ہی خود کو وزیراعظم سمجھنا بھی شروع کر دیا اور اپنا سفر وہیں سے شروع کیا جہاں 1999 میں اختتام ہوا تھا یعنی جنرل مشرف پر غداری کا مقدمہ قائم کر دیا اور دوسری طرف چین سے تعلقات بڑھا کر امریکہ کو بھی ناراض کر دیا ان وجوہات کی بنا پر شروع ہی سے نواز شریف کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے دھاندلی کے معاملے پر عمران خان کا دھرنا ہوا اس کے بعد پانامہ سکینڈل کے آتے ہی ایک بار پھر عمران خان نے احتجاجی تحریک شروع کر دی اور معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا اسی دوران نواز شریف کا دل کا آپریشن بھی ہوا اور پھر یمن جنگ میں سعودی خواہشات کے مطابق شرکت سے انکار کر کے نواز شریف نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھی ناراض کر دیا اور بعد میں پانامہ سکینڈل کیس میں سپریم کورٹ سے نااہل قرار پائے۔
نواز شریف کے سیاسی ٹریک ریکارڈ سے یہ بات واضح ہے کہ نواز شریف اقتدار تک پہنچنے کے لئے تو مصلحت سے کام لے سکتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ہمیشہ وہی کرتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں، نہ تو وہ ڈیکٹیشن لیتے ہیں اور نہ ہی کبھی دباؤ میں آتے ہیں۔
اس بار بھی اگر نواز شریف مصلحتا کچھ لچک دکھا رہے ہیں تو یہ صرف نواز شریف کی ضرورت نہیں ہو گی یقینا مقتدر قوتوں کو بھی نواز شریف کی یا ان کی جماعت کی ضرورت ہو گی اور کہیں نہ کہیں مقتدر قوتیں بھی اپنے بیانیے سے کچھ پیچھے ہٹی ہیں جس کا واضح ثبوت نواز شریف کا علاج کی غرض سے باہر جانا اور عمران خان کا این آر او نہیں دونگا کی گردان کو ترک کر دینا ہے۔
مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔