حقوقِ خلق موومنٹ اور پروگریسو سٹوڈنس کولیکٹو کی جانب سے لاہور پریس کے سامنے اسلام آباد میں نوجوان اسامہ ستی کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے میں طلبہ،سول سوسائٹی اور سیاسی و سماجی کارکنان کی بڑی تعداد میں شرکت کی۔
احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ماورائے عدالت قتل اور اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں شہریوں کا قتل عام ایک معمول بن چکا ہے۔ مظاہرین نے اسامہ ستی، نقیب اللہ محسود، حیات بلوچ، سانحہ ساہیوال، صلاح الدین، سرفراز شاہ اور دیگر ماورائے عدالت قتل ہونے والے شہریوں کی تصاویر اور ناموں کے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔
حقوق خلق موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر عمار علی جان کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کے اہلکاروں کو شہریوں کو مارنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ شہری اپنے ہی محافظوں سے تحفظ کی بجائے خوف محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت شہریوں کو تحفظ دینے میں تو ناکام ہو چکی ہے مگر جب تحفظ کرنے والے ہی شہریوں پر بندوق تان لیں تو شہری کہاں جائیں۔
مظاہرے میں شریک شرکاء نے بلوچستان میں ہزارہ نسل کشی کے خلاف بھی نعرے لگائے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کو مسلکی بنیادوں پر مارا جارہا ہے۔ ہزارہ نسل کشی پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے جبکہ حکومت نے ان کے تحفظ کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے۔ مظاہرین نے ماورائے عدالت قتل کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی اور اسامہ ستی سمیت ہزارہ برادری کے قتل عام میں ملوث افراد کو پکڑ کر جلد از جلد قانونی کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔