اسامہ ستی کا ماورائے عدالت قتل، اور ہماری گولیوں سے چھلنی تاریخ

اسامہ ستی کا ماورائے عدالت قتل، اور ہماری گولیوں سے چھلنی تاریخ
1992 میں جب کراچی میں آپریشن شروع کیا گیا تو اس کے آثار حیدر آباد کے قریبی علاقے ٹنڈو بہاول تک بھی جا پہ پہنچے جہاں ڈاکوؤں کے خلاف بھی آپریشن کیا گیا۔  ٹنڈو بہاول میں رینجرز کے ایک میجرجنرل ارشد جمیل نے ایک ہی گاؤں کے 9 افراد کو دریا کے کنارے لے جا کر گولیاں مار دیں۔ رینجرز حکام کی جانب سے ان افراد پر الزام عائد کیا گیا کہ یہ سب مطلوب ڈاکو تھے جب کہ اس ماورائے عدالت قتل پر پردہ ڈالنے کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو حیدر آباد لے جایا گیا اور انہیں قتل کیے جانے والوں سے منسوب کچھ اسلحہ دکھا کر اپنی بے حسی چھپانے کی کوشش کی گئی۔

ان 9 افراد میں مائی جندو نامی ایک عورت کے 2 بیٹے اور 1 داماد بھی شامل تھے۔ بھائیوں اور شوہر کے قتل پر انصاف نہ ملنے کے باعث مائی جندو کی دو بیٹیوں نے خود سوزی کر لی۔ خاندان کی واحد زندہ بچ جانے والی بزرگ خاتون مائی جندو نے انصاف کے حصول کے لئے ایک لمبی قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس بوڑھی عورت نے 4  سال تھانوں، کچہریوں، میڈیا، سیاستدانوں اور سرکاری دفاتر کے سینکڑوں چکر کاٹے مگر ہمت نہ ہاری اور یوں 4 سال کی جہد مسلسل کے بعد بالآخر مائی جندو کو انصاف ملا۔ میجر جنرل ارشد جمیل کا کورٹ مارشل کر کے اسے پھانسی دی گئی اور دیگر افسران کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

مائی جندو کے بیٹوں اور داماد کو ماورائے عدالت قتل کی بھینٹ چڑھے 28 سال کا عرصہ بیت چلا ہے مگر یہ روایت اسلام آباد میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان اسامہ ندیم ستی کی صورت میں آج بھی جاری ہے۔ پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کی ایک  لمبی داستان ہے جو ہمارے ملک کے اداروں کی بے حسی، ناکامی اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پاکستان کی حالیہ تاریخ میں سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے شہریوں کا قتل ایک معمول بن چکا ہے۔ ہر ماورائے عدالت قتل پر کچھ دیر کے لئے آواز اٹھتی ہے، بڑے بڑے بیانات بھی سامنے آتے ہیں، انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بلند و بالا دعوے بھی کیے جاتے ہیں بس فرق یہ ہے کہ ماورائے عدالت کے یہ زخم پھر سے تازہ ہوجاتے ہیں۔ ماضی میں ہوئے ایسے اقدام قتل پر لمبی تاویلوں کے باوجود کسی بھی ایک واقعے پر اطمینان بخش کارکردگی دیکھنے میں نہیں ملی۔ البتہ اس قسم کے واقعات کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

کراچی سرفراز ماورائے عدالت قتل، 2011

2011 میں کراچی  میں ماورائے عدالت قتل کا ایک واقعہ پیش آیا جب جان کی بھیک مانگتے ایک نوجوان کو رینجرز اہلکار نے گولیوں سے ہلاک کر دیا۔ اس دل دہلا دینے والے واقعے کی ویڈیو ایک صحافی عبدالسلام نے بنائی جسے اس کے اپنے ادارے سماء ٹی نے چلانے سے انکار کر دیا۔ تاہم، بعد میں یہ ویڈیو کسی اور چینل پر چلائی گئی۔ شدید دھمکیوں کی وجہ سے ویڈیو بنانے والے صحافی کو خاندان سمیت کراچی بدر ہونا پڑا۔ اس دل دہلا دینے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سیاہ رنگ کی ٹی شرٹ پہنے نوجوان سرفراز شاہ رینجر اہکار سے اپنی جان کی بھیک مانگ رہا ہے جب کہ G3 جنگی رائفل تھامے رینجرز اہلکار کو ترس نہ آیا۔



طاقت کے نشے میں  چور اس رینجراہلکار نے انتہائی قریب سے سرفراز کے جسم پر دو فائر داغے اور وہ لڑکھڑاتا ہوا زمین پر جا گرا۔ چند لمحوں بعد اس کے تڑپتے جسم سے روح نکل گئی اور درد سے بلکتا نوجوان خدا کو پیارا ہو گیا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن، لاہور، جون 2014

حالیہ تاریخ میں ماورائے عدالت قتل کا ایک خوفناک واقعہ لاہور میں پیش آیا جب دن دہاڑے لاہور کے علاقہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس کی جانب سے نہتے شہریوں پر گولیوں کی برسات کر دی گئی۔ 17 جون 2014 کو پاکستان عوامی تحریک کے دفتر سے بیریئرز ہٹانے کا معاملہ 14 افراد کی ہلاکتوں اور 90 سے زائد افراد کے زخمی ہونے پر ختم ہوا۔ گلی میں بیریئرز لگانے اور نا جائز تجاوزات کی مد میں شہریوں کے تحفظ کی ضامن پنجاب پولیس نے ان پر فائر کھول دیا۔ منہاج القرآن دفتر کا بیرونی علاقہ گھنٹوں تک میدان جنگ بنا رہا جہاں ایک طرف سرکاری اسلحے سے لیس پولیس اہلکار تھے جب کہ دوسری طرف بے یار و مددگار شہری۔ اس واقعے کے بعد سیاسی قیادت اور پولیس کے اعلیٰ افسران  نے قتل ہونے والوں کے ورثا کو انصاف دلانے کی بھرپور یقین دہانیاں کروائیں لیکن آج تک اس کیس کا کوئی مرکزی کردار سامنے نہ آ سکا جب کہ آج تک ان 14 انسانوں کو مار دینے والوں میں کسی ایک کو سزا نہیں ہوئی۔ روایتی خانہ پوری کرتے ہوئے چند افسران کے تبادلے کر دیے گئے، چند مہنیوں کے لئے ایک دو وزرا کو ان کے عہدوں سے سبکدوش کر دیا گیا جب کہ جسٹس باقر نجفی کی عدالتی رپورٹ کو بھی فریقین کی جانب سے مبہم بنا دیا گیا۔

قصور زینب واقعہ احتجاج میں دو افراد قتل، جنوری 2018

ریاستی اداروں کی جانب سے معصوم شہریوں پر بندوق چلانے کی داستان یہیں نہ رکی۔ جنوری 2018  میں پنجاب کے ضلع قصور میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا جب 7 سالہ زینب کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد قصور میں عوام نے بہت بڑی تعداد میں احتجاج کیا۔ پنجاب پولیس نے عوامی غم و غصے کے اظہار کا جواب ان پر فائر کھول کر دیا۔ احتجاجی ہجوم پر پولیس کی اندھا دھند فائرنگ سے 2 شہری جاں بحق ہو گئے۔ زینب کے  قاتل کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا مگرآج تک ان پولیس والوں کے خلاف کی گئی کارروائی کا کوئی حتمی نتیجہ نہ نکل سکا جن کی گولیوں نے 2  معصوم افراد کی جانیں لیں۔

نقیب اللہ محسود قتل کیس، جنوری 2018

اسی ماہ 13 جنوری 2018  کو کراچی کے علاقہ ملیر میں ایک خوبرو پشتون نوجوان نقیب اللہ محسود کو پولیس حراست کے بعد انکاؤنٹر کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پشتون نسل پرستی کی بنیاد پر قید اور قتل ہونے والے نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کا ذمہ دار شہر کے سب سے طاقتور پولیس افسر کو قرار دیا گیا جس کی طاقت کے سامنے ساری ریاستی مشینری بے بس نظر آئی۔ بدقسمتی سے راؤ انوار آج بھی نقیب اللہ محسود کے قتل کا تغمہ سینے پر سجائے پروٹوکول کے ساتھ گھوم رہا ہے۔



نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل اور انصاف کے حصول کے لئے دیے گئے دھرنے سے پشتون تحفظ موومنٹ پھوٹی۔ انسانی حقوق اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف اٹھنے والی اس تحریک کو پوری ریاستی مشینری غدار اور باغی ثابت کرنے پر تل گئی لیکن نقیب اللہ محسود کے قتل کا مرکزی ملزم ایس ایس پی راؤ انوار مکمل ریاستی سرپرستی کے تحت آج بھی اس ملک کے نظامِ انصاف پر ہنس رہا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی ایم کے مرکزی رہنما اور ایم این اے علی وزیر اسی ریاستی جبر کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں راؤ انوار کے شہر کراچی کی جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہیں۔

سانحہ ساہیوال، جنوری 2019

نقیب اللہ محسود کے قتل کے ایک سال بعد 19 جنوری 2019 کو ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے تین معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جب لاہور کے علاقہ چونگی امرسدھو کا یہ خاندان ایک شادی میں شرکت کے لئے اپنے رشتہ داروں کے ہاں جا رہا تھا۔ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے تصدیق کیے بغیر شک کی بنیاد پر گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کے نتیجے میں ڈرائیور ذیشان سمیت کریانہ کی دکان چلانے والے خلیل، ان کی اہلیہ نبیلہ اور ان کی 13 سالہ بیٹی اریبہ موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ جب کہ خلیل کے دیگر زخمی بچے عمر خلیل، منیبہ اور حدیبہ نے اپنے والدین کو اپنے سامنے تڑپتے ہوئے مرتے دیکھا۔



صلاح الدین قتل کیس، ستمبر 2019

پولیس تشدد اور ریاستی دہشتگردی کی ایک اور حالیہ مثال صلاح الدین کی ہے۔ صلاح الدین پر الزام تھا کہ اس نے اے ٹی ایم سے پیسے چرائے۔ بعد ازاں سی سی ٹی وی کیمرے کے سامنے اس کی حرکات سے پتہ چلا کہ وہ ذہنی مریض ہے۔ رحیم یار خان کی پولیس نے اسے حراست میں لیا اور اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دورانِ تشدد معصوم صلاح الدین کی ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جس میں صلاح الدین تشدد کرنے والے اہلکار سے مخاطب ہو کر پوچھتا ہے ’ایک سوال پوچھوں؟ مارو گے تو نہیں؟ یہ بتائیں کہ آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟‘



اس سوال کا جواب سنے بغیر معصوم صلاح الدین زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خدا کو پیارا ہو گیا۔ اس کے جسم پر تشدد کے نشانات کی تصدیق رحیم یار خان کے شیخ زید اسپتال نے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کی۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ ذہنی مریض صلاح الدین کے اہل خانہ نے اس کی موت کا تخمینہ وصول کر کے قاتلوں کو معاف کرنے کا اعلان کر دیا۔

حیات بلوچ کیس، اگست 2020

گذشتہ سال اگست میں جب پورا پاکستان جشن آزادی منانے میں مصروف تھا، اسی دوران بلوچستان کے ضلع تربت میں سکیورٹی اہلکاروں نے کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کو اس کے والدین کے سامنے گولیوں سے ہلاک کر دیا۔ حیات بلوچ کی موت کی کہانی بیان کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہے، جہاں کھجوروں کے باغ میں اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے نوجوان کو سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے زمین پر گھسیٹتے ہوئے مرکزی شاہراہ پر لایا گیا۔ حیات بلوچ کی ماں کا دوپٹہ چھین کر اس کے بیٹے کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور اس پر بندوق تان لی گئی۔ اپنے بیٹے کی معصومیت کی صفائیاں دیتے والدین کے سامنے ان کے بیٹے کے جسم پر 6 فائر داغے گئے۔



اس خبر کے بعد پہلے تو ریاست کی جانب سے حیات بلوچ کو ایک دہشتگرد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کا تعلق ایک مبینہ علیحدگی پسند تنظیم سے جوڑا گیا مگر جب پتہ چلا کہ یہ کراچی یونیورسٹی کا طالب علم ہے اور اس کا دور تک ایسی سرگرمیوں سے تعلق نہیں تو ہمیشہ کی طرح انصاف کی یقین دہانیاں کروائی گئیں مگر تاحال حیات کے اہل خانہ کو انصاف نہیں مل سکا۔

اسلام آباد اسامہ ندیم ستی کیس جنوری 2021

آج اسلام آباد میں ماورائے عدالت قتل کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے۔ جہاں انٹر میڈیٹ کے ایک طالب علم اسامہ ندیم ستی کی گاڑی پر شک کی بنیاد پر 17  گولیاں داغی گئیں جن میں سے 6 اس نوجوان کے جسم میں اتریں۔ پہلے تو پولیس نے اسے ڈاکو اور مشکوک قرار دینے کی کوشش کی، چند پولیس اہلکاروں نے تو یہ تک کہہ ڈالا کہ نوجوان نے ان پر فائرنگ کی۔ تاہم، پولیس ہی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آ گئی کہ مقتول کی گاڑی سے کوئی اسلحہ بر آمد نہیں ہوا۔ اس واقعے کے بعد سیاسی بیانات اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اب تو یہ سب رسمی جملوں سے لگتے ہیں جنہیں سننے کی عوام کو عادت ہو چکی ہے۔

یہ وہ کیسز ہیں جو کسی نہ کسی صورت میڈیا پر آ گئے مگر ایسے ماورائے عدالت قتل، ریاستی اداروں کے اہلکاروں کا عوام پر تشدد ایک معمول ہے۔ آج اس ملک کے شہری اپنے ہی محافظوں سے ڈرتے ہیں۔ اور سرفراز شاہ کے قتل پر جاوید ہاشمی کے کہے گئے الفاظ کے مطابق باڑ ہی کے کھیت کو کھا جانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ بقول افکار علوی؎

ہتھیار ڈال دیجیے اب یہ نہ ہو کہیں۔۔۔۔

مرنے سے بچنے کے لئے ہم مارنے لگیں۔۔۔!

حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔