جنوری 2019 کے شروع میں سانحہ ساہیوال ہوا۔ متضاد بیانات، سی ٹی ڈی کا کردار، بچوں کے بیانات، عینی شاہدین کی گواہیاں، جے آئی ٹی کی رپورٹ سب روایتی حربے ایک طرف لیکن اس سانحے کے شکار ذیشان کی ماں کی ہائے ایک طرف۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے اس کی ایک ہی دہائی ہے۔ میرے بیٹے، میرے لعل پر سے دہشتگرد ہونے کا لیبل ہٹا دو۔ اس ماں کی ہمت کو سلام جو ابھی تک انتظامیہ، سیاست دانوں اور دہشتگرد سی ٹی ڈی والوں کے سامنے کھڑی ہے۔ اسے دیکھ کر کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ اس کے اندر بھی ایک مائی جندو زندہ ہے؟
شاید کم لوگ جانتے ہیں کہ مائی جندو کون ہے تو چلیں اب یہ جان لیں آپ۔
یہ 5 جون 1992 تھا، ٹنڈو بہاول سندھ کے گاؤں میں ایک حاضر سروس میجر ارشد جمیل نے پاک فوج کے دستے کے ساتھ چھاپہ مار کر 9 کسانوں کو گاڑیوں میں بٹھایا اور جامشورو کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے لے جا کر گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ فوج نے الزام لگایا کہ یہ افراد دہشتگرد تھے اور ان کا تعلق بھارت کے ادارے ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ سے تھا۔
لاشیں گاؤں آئیں تو نہ صرف گاؤں بلکہ پورے علاقے میں کہرام مچ گیا بلکہ ہر ماں اپنے بیٹے کی لاش پر ماتم کر رہی تھی۔ ان کے بین دل دہلا رہے تھے۔ ان ماؤں میں ایک 72 سالہ بوڑھی عورت مائی جندو بھی تھی۔ اس کے سامنے اس کے دو بیٹوں بہادر اور منٹھار کے علاوہ داماد حاجی اکرم کی لاش پڑی تھی مگر وہ خاموش تھی، عورتیں اسے بین کرنے پر اکسا رہی تھیں، مائی جندو سکتے کے عالم میں بیٹوں اور داماد کے سفید ہو گئے چہرے دیکھے جا رہی تھی۔
ہر شخص کہہ رہا تھا کہ خاموشی سے میتیں دفنا دی جائیں۔ قاتل بہت طاقتور تھے۔ ان غریب ہاریوں کا ایسی طاقت والوں سے کیا مقابلہ؟ مائی جندو کو بار بار رونے کے لئے کہا گیا تو اس نے وحشت ناک نگاہوں سے میتیوں کی طرف دیکھا اور بولی، بس! مائی جندو ایک ہی بار روئے گی، جب بیٹوں کے قاتل کو پھانسی کے پھندے میں لٹکتا دیکھے گی۔ سب جانتے تھے ایسا ممکن نہیں تھا مگر آخر لوگ خاموش ہو گئے۔ مائی جندو کی بیٹیاں کُرلا رہی تھیں مگر مائی جندو ساکت بیٹھی قتل ہونے والوں کو تکے جا رہی تھی۔
جنازے اٹھے تو مائی جندو نے سر کی چادر کمر سے باندھی سیدھی کھڑی ہوئی اور لہو ہوتے جگر کے ساتھ بیٹوں کو الوداع کیا۔
مسئلہ یہ تھا کہ یہ ٹنڈو بہاول اندرون سندھ کا ایک دور دراز گاؤں تھا اور تب دریائے سندھ کے اس کنارے پر قتل ہونے والوں کی ویڈیو بنانے کے لئے موبائل کیمرہ بھی نہیں آیا تھا، ملک اور سندھ بھر میں خبر چلی کہ دشمن کے ایجنٹ مار کر ملک کو بڑے نقصان سے بچا لیا گیا۔ جس نے پڑھا سُنا اس نے شکر کیا۔
جب سارا ملک شکرانہ ادا کر رہا تھا تب مائی جندو نے احتجاجی چیخ ماری۔ اس چیخ نے پرنٹ میڈیا کی سماعتیں چیر کے رکھ دیں۔ مائی جندو بوڑھی تھی۔ جسمانی لحاظ سے کمزور، مگر وہ تین مقتولوں کی ماں تھی۔ اس نے طاقت کے مراکز سے جنگ کا فیصلہ کیا اور اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر قاتلوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ سوشل میڈیا کی غیر موجودگی میں یہ جنگ آسان نہ تھی مگر نقارے بج چکے تھے، کشتیاں جل چکی تھیں اور واپسی محال تھی۔ اخباروں اور صحافیوں کے ہمراہ مائی جندو نے اس چیخ کو طاقتی مراکز کے سینوں میں گھونپ دیا۔ پہلی جھڑپ ختم ہوئی اور گرد چھٹی تو معلوم ہوا کہ قتل ہونے والے دہشت گرد نہ تھے بلکہ میجر ارشد جمیل کا ان کے ساتھ زرعی زمین کا جھگڑا تھا، جس کی سزا میں انہیں قتل ہونا پڑا تھا۔
24 جولائی 1992 کو جنرل آصف نواز اور نواز شریف نے ملاقات کی اور جنرل آصف نواز نے میجر ارشد جمیل کا کورٹ مارشل کرنے کا حکم دے دیا۔ 29 اکتوبر کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے میجر ارشد جمیل کو سزائے موت اور 13 فوجی اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ میجر نے پاک فوج کے سپہ سالار کو رحم کی اپیل کی جو 14 ستمبر 1993 کو مسترد ہوئی۔ اس کے بعد رحم کی اپیل صدر فاروق لغاری سے کی گئی جو 31 جولائی 1995 کو مسترد تو کر دی گئی لیکن سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ اس کے بعد میجر ارشد جمیل کے بھائی کی اپیل پر سپریم کورٹ کے جج سعید الزمان صدیقی نے حکم امتناع جاری کیا اور سزا روک دی۔
سزائے موت پر عمل نہ ہونے پر 11 ستمبر 1996 کو مائی جندو پھر میدان میں نکلی۔ اس کی دو بیٹیوں نے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے جسموں پر تیل چھڑک کر خود کو آگ لگا لی۔ ان کو نازک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ بچ نہ سکیں۔
پورے ملک میں ایک بار پھر کہرام مچ گیا۔ بالآخر 28 اکتوبر 1996 کو طاقت کی دیواریں مائی جندو کے مسلسل دھکوں کے سامنے ڈھیر ہو گئیں۔
یہ حیدر آباد سنٹرل جیل تھی جب مائی جندو کو پھانسی گھاٹ پر لایا گیا۔ سامنے تختہ دار پر اس کے گاؤں کے 9 بیٹوں کا قاتل میجر ارشد جمیل کھڑا تھا۔
دار کا تختہ کھینچا گیا تو قاتل میجر ارشد جمیل کا جسم دار پر جھول گیا۔ عین اسی وقت سامنے کھڑی مائی جندو کی بوڑھی مگر زورآور آنکھ سے ایک اشک نکلا اور اس کے رخسار کی جھریوں میں تحلیل ہو گیا۔
مائی جندو تمہیں دنیا کے تمام کمزور اور مظلوم سلام کرتے ہیں۔
مائی جندو، مجھے لگ رہا ہے ایک بار پھرتمہیں کسی روپ میں دیکھا ہے میں نے۔ آج ذیشان کی ماں کو انصاف نہ ملا تو پھر سوچ لو ایک بار پھر مائی جندو اس ماں کے روپ میں آئے گی اور پھر شاید ایک نہیں بہت سے گنہگار تختہ دار پر لٹکیں گے۔