کیا پاکستانی عدالتوں کی سست روی نے نقیب اللہ محسود کے والد کی جان لے لی؟

کیا پاکستانی عدالتوں کی سست روی نے نقیب اللہ محسود کے والد کی جان لے لی؟
پاکستان کے شہر کراچی میں بدنام زمانہ پولیس افسر ایس ایس پی راؤ انوار کے ہاتھوں جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے جنوبی وزیرستان کے نقیب اللہ محسود کے 60 سالہ والد محمد خان محسود اپنے بیٹے کے لئے انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد میں در در کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے آخرکار کینسر کے موذی مرض سے زندگی کی جنگ ہار گئے۔

محمد خان انصاف ملنے کی اُمید دل میں لیے پیر کے روز ٹانک میں انتقال کر گئے۔ انہیں جنوبی وزیرستان میں ان کے آبائی گاؤں مکین میں سپردخاک کیا گیا۔ اپنے بیٹے کے لئے انصاف کی جنگ لڑنے والے ضعیف العمر محمد خان کے ساتھ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے لے کر کئی سیاستدانوں، وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیموں  نے انصاف دلانے کے وعدے کیے۔ مگر، محمد خان نے جوان بیٹے کے لئے انصاف حاصل کرنے کا ارمان دل میں لیے ٹانک میں بستر مرگ پر آخری ہچکی لے کر زندگی موت کے حوالے کی۔

محمد خان کون تھے اور بیٹے کے قتل کے بعد انصاف کی راہ میں کن کن رکاوٹوں کا سامنا کیا؟ نیا دور میڈیا نے اپنے قارئین کے لئے محمد خان کی زندگی کے مختلف پہلو کا جائزہ لینے کے لئے ان کے قریبی لوگوں سے بات کی ہے جو آپ کے لیے پیش خدمت ہیں۔

60 سالہ محمد خان جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں پیدا ہوئے جن کے تین بیٹے تھے اور نقیب اللہ دوسرے نمبر پر تھا۔ ان کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا۔ اس خاندان نے جنوبی وزیرستان میں سال 2009 میں آپریشن راہ نجات کے بعد شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک کی جانب ہجرت کی اور سال 2014 میں واپس اپنے آبائی گاؤں چلے گئے۔

نیا دور نے محمد خان کی زندگی پر مزید جاننے کے لئے بین الاقوامی میڈیا سے وابسطہ عدنان بیٹنی سے پوچھا جو نقیب اللہ محسود کے والد کے بہت قریب رہے۔ مرحوم محمد خان کا سب سے پہلا انٹرویو بھی عدنان بیٹنی نے کیا تھا جو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوا۔

عدنان بیٹنی نے بتایا کہ نقیب اللہ محسود کی شہادت کے بعد میں سیدھا مکین میں ان کے گھر پہنچ گیا اور ان سے انٹرویو لینے کے لئے کہا تو وہ بہت دباؤ میں تھے اور ان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ مگر، ان کے گھر کی خواتین نے کہا کہ اگر آپ انٹرویو نہیں دیں گے تو پھر ہم خود باہر آ کر انٹرویو دیں گی، جس پر انھوں نے مجھے پہلا انٹرویو دیا۔

عدنان نے مزید بتایا کہ نقیب اللہ محسود کے والد پر بہت دباؤ تھا، جب میں دوسرے دن ان کے انٹرویو کے لئے پہنچا تو وہ بہت پریشان تھے مگر بعد میں جب نقیب اللہ کی اندوہناک موت پر پورا پاکستان کھڑا ہوا تو وہ بہت حوصلے میں نظر آئے۔ محمد خان یہی کہا کرتے تھے کہ میرا بیٹا مرا نہیں بلکہ زندہ ہے۔ کیونکہ، ماورائے عدالت قتل کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں مگر میرے بیٹے کی طرح لوگ ان پر کھڑے نہیں ہوئے۔

عدنان نے بتایا کہ وہ عدالتی نظام سے بہت مایوس تھے کیونکہ ایک طرف وہ بیمار تھے اور دوسری طرف ان کی معاشی حالت بھی اچھی نہیں تھی۔ کراچی میں ایک پیشی پر ان کا 70 ہزار روپے خرچہ آتا تھا کیونکہ وہ بیمار تھے اور اپنے گاؤں سے پشاور تک خصوصی گاڑی میں جاتے تھے اور وہاں سے جہاز میں کراچی جاتے تھے، جس میں بہت ساری عدالتی کارروائیاں منسوخ ہو جاتی تھیں، جن کی وجہ سے وہ اور پریشان ہو جاتے تھے۔

عدنان نے نیا دور میڈیا کو مزید بتایا کہ وہ اکثر ہمارے ساتھ اور عدالت کے سامنے بھی ذکر کرتے تھے کہ میرے بیٹے کے قاتل راؤ انوار کو اپنے شہر میں عدالت نصیب ہے جبکہ مجھے ہزاروں میل دور آنا پڑتا ہے۔

انھوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ کیس کو خیبر پختونخوا شفٹ کیا جائے مگر یہ نہیں ہوسکا۔ کیونکہ ان کو اور ان کے خاندان کو مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں جس کی وجہ سے وہ مسلسل دباؤ میں تھے اور کیس اسلام آباد شفٹ ہونے پر بھی راضی تھے۔

عدنان نے نقیب اللہ محسود کے والد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مزید بتایا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا وہ ذکر کرتے تھے کہ انھوں نے ان کے ساتھ انصاف کا وعدہ کیا ہے اور انصاف کے لئے وہ پراُمید تھے۔ مگر، عدالتی کارروائیوں کا حال دیکھ کر وہ مایوس ہو گئے تھے اور اکثر عدالتی نظام کی سست روی پر بات کرتے تھے۔

عدنان نے یہ بھی بتایا کہ کچھ حلقوں کی جانب سے ان کو پیغام دیا گیا کہ آپ پشتون تحفظ مومنٹ سے دور رہے تو آپ کو جلدی انصاف مل جائے گا، جس پر انھوں نے ایک پریس کانفرنس بھی کی اور پشتون تحٖفظ مومنٹ سے دور ہو گئے۔

عدنان نے نیا دور کو بتایا کہ مقامی لوگ ان کے والد کو ڈرا رہے تھے کہ راؤ انوار بہت طاقتور ہے اور ایک بیٹا تو چلا گیا اب دوسرے بیٹوں کو کیوں داؤ پر لگا رہے ہو۔ انھوں نے ایف آئی آر کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر میں ان کے ساتھ دھوکہ ہو گیا کیونکہ راؤ انوار کا نام شک کی بنیاد پر ڈالا گیا ہے۔

عدنان کا کہنا تھا کہ جب راؤ انوار کی ضمانت منظور ہو گئی تو وہ اندر سے ٹوٹ گئے تھے کیونکہ ان کی نظر میں ان کے بیٹے کے قاتل نہ صرف کھلے عام گھوم رہے ہیں بلکہ اپنے گھر میں ان کو انصاف مل رہا ہے جبکہ مجھے میلوں دور وزیرستان سے آنا پڑ رہا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ محمد خان نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ راؤ انوار کی رہائی سے ان کی جان کو خطرہ ہے اور ان کو گرفتار کریں مگر نہیں ہو سکی۔

عدنان نے مزید کہا کہ مئی کے مہینے سے وہ سخت بیمار ہوئے اور بستر مرگ پر رہے کیونکہ ان کو کینسر کا عارضہ لاحق تھا اور پھر بہت کم میڈیا پر نظر آئے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔