طبابت ایک مقدس پیشہ ہے اور طب کے شعبہ میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر حضرات یقینی طور پر مسیحائے انسانیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ میرے قریبی عزیزوں سے لے کر دوستوں تک میں ڈاکٹروں کی ایک معقول تعداد موجود ہے اس لئے مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ وہ کتنی محنت سے اور کتنے ڈھیر سارے پیسے خرچ کر کے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کرتے ہیں۔ اس پیشے کا تقدس برقرار رکھنے کے لئے یہ لوگ میدان عمل میں بھی جاں فشانی اور محنت سے لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔
اس کے برعکس آپ کی اکثریت نے 'نیم حکیم خطرہ جان' والا محاورہ بھی ضرور سن رکھا ہو گا۔ یہ ان افراد پر پورا اترتا ہے جو اس مقدس پیشے کا تشخص مسلسل مجروح کرنے میں مصروف ہیں اور جن کو عطائی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
عطائیت کا ناسور پاکستان کے پسماندہ علاقوں، قصبوں اور دیہاتوں میں تیزی سے پھیل کر لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔ جب ان علاقوں کے گلی اور محلوں میں جائیں تو وہاں عطائیوں کی بھرمار نظر آتی ہے۔ عطائی محض ڈسپنسری کا کام سیکھ کر یا کمپاؤنڈر ہوتے ہوئے کلینک کھول کر بیٹھے نظر آتے ہیں اور ہر وہ علاج تجربے کی صورت میں مریضوں پر کرتے ہیں جو کہ ایم بی بی ایس اپنی پڑھائی اور تجربے کے بعد علاج کی صورت میں کرتا ہے۔
کچھ تو ایسے بھی ہیں جو صرف کسی ڈاکٹر کے کلینک پر کچھ عرصہ مریضوں کو دوائیں پیک کر کے دیتے ہیں اور اس کے بعد کسی دوسرے محلہ یا گاؤں میں جا کر اپنا کلینک کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔
ہمارے پسماندہ اور چھوٹے علاقوں میں عطائیت کے پھیلتے ہوئے زہر کی چند بنیادی وجوہات ہیں جن میں سے پہلے نمبر پر ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی ان علاقوں میں عوام کو عدم دستیابی ہے۔ ڈاکٹر حضرات کی اکثریت اتنا پڑھ لکھ کر ان علاقوں میں جا کر عوام کی خدمت کرنا پسند نہیں کرتی جس کی وجہ سے عطائیوں کا کاروبار زوروں پر ہوتا ہے۔
ایک اور وجہ یہ ہے کہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے مقابلے میں عطائی کی فیس بھی کم ہوتی ہے اس لئے غریب شخص جو پہلے ہی حالات کی چکی میں پس رہا ہوتا ہے وہ عطائی کے پاس سے سستی دوا لینا زیادہ پسند کرتا ہے۔
عطائی عموماً ایسی دوا دیں گے جو کہ زیادہ طاقت اور اثر رکھتی ہے اور اگر وہ ٹھیک نشانے پر جا لگے تو وقتی طور پر جلد آرام آ جاتا ہے مگر اس کے جسم پر دیرپا اثرات بہت مہلک ہوتے ہیں اور جسم رفتہ رفتہ زیادہ طاقت والی دوا کا عادی ہو جاتا ہے جس سے دیگر اعضا پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔
میرے آبائی قصبہ میں بھی کم و بیش ایسی ہی صورت حال ہے جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں۔ اکثر افراد کی اموات کا جب مجھے پتا چلتا ہے تو اس میں ایک بات یکساں موجود ہوتی ہے کہ ان کی طبیعت اچانک خراب ہونے پر کسی عطائی کے کلینک پر لے کر گئے جہاں اس نے مختلف دواؤں کے تجربے کرنے کے بعد کہا کہ اس کو قریبی بڑے شہر لے جائیں کیونکہ اب اس کے تجربات ناکام ہو چکے ہیں۔
عطائی یعنی قصائی کا تجربہ ناکام ہونے کے بعد جب اہل خانہ اس شخص کو اعلیٰ سہولیات والے اسپتال میں یا پڑھے لکھے ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ہیں تو وہاں پہنچ کر انکشاف ہوتا ہے کہ مریض تو رستے میں یا پھر عطائی کے تجربے کے وقت ہی وفات پا چکا تھا۔
بعض صورتوں میں عطائی کے غلط انجکشن سے فوری موت بھی واقع ہو جاتی ہے اور عطائی اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے اسے دل کا دورہ قرار دے دیتا ہے جس کو سادہ لوح اور حالات کے ہاتھوں مجبور افراد تسلیم کر لیتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو جہاں تھوڑا سا بھی موت کے بارے میں شبہ ہو یا ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی غفلت کا شائبہ ہو تو پوسٹ مارٹم ضرور ہوتا ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر پاکستان کے عطائی زدہ علاقوں میں مریض کے لواحقین پوسٹ مارٹم کے نام سے ہی بدک جاتے ہیں اور ان کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ مریض تو اپنی آئی سے وقت پر چلا گیا، لیکن اب وہ میت کی چیر پھاڑ کرا کے بے حرمتی کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس صورت میں جب تک کسی مرنے والے کے قریبی کی طرف سے استدعا نہ کی گئی ہو اس وقت تک عموماً انتظامیہ پوسٹ مارٹم سے اجتناب کرتی ہے۔
ان عطائیوں میں سے اکثر کو صرف میڈیکل سٹور کھولنے کی اجازت ملتی ہے جس پر یہ خود ایم بی بی ایس کے فرائض سرانجام دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی ان کے تجربات سے وفات پا جائے تو دل کا دورہ یا پھر دوائی کا ری ایکشن قرار دے کر بچ نکلتے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے انسانی جانوں سے کھیلنے والے حضرات بھی موجود ہیں جو اپنے دواخانوں پر نشے والی ممنوعہ ادویات بھی رکھتے ہیں اور بغیر نسخے کے سرعام اس کی فروخت کرتے ہیں۔
اگر عطائیت کے پھیلتے ہوئے زہر کو اب بھی نہ روکا گیا تو ایسے ہی انسانی جانیں ان جعلی ڈاکٹروں کے تجربات کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی اور گھر اجڑتے رہیں گے۔ اس ضمن میں عوام تو ذمہ دار ہے ہی مگر اس سے زیادہ لوکل انتظامیہ اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عطائیت کے بڑھتے ہوئے ناسور کو معاشرے سے ختم کریں۔ یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب ریاست عوام کو ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی سہولیات مناسب داموں میں ملک کے ہر قصبے اور بڑے گاؤں میں فراہم کرے۔
مزید براں یہ اسی صورت ممکن ہے جب لوکل انتظامیہ مک مکا کرنے کی بجائے عوام کی جانوں کی اہمیت کو سمجھیں اور قانون پر عمل کرتے ہوئے ان عناصر کے گرد اپنا شکنجہ کس لے۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔