چیف جسٹس نے کہا بہادر عمران خان کو فوج نہیں توڑ سکتی، اسد علی طور

چیف جسٹس نے کہا بہادر عمران خان کو فوج نہیں توڑ سکتی، اسد علی طور
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ فوج چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو نہیں توڑ سکتی۔ وہ بہت بہادر ہیں۔ انہوں نے بالآخر اس بات کی تصدیق بھی کر دی کہ انہوں نے اعلیٰ ترین عدالت میں ہم خیال ججوں کا ایک بلاک بنا رکھا ہے۔ یہ انکشافات صحافی اسد علی طور نے اپنے حالیہ وی لاگ میں کیے۔

اسد علی طور نے حال ہی میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی عدالتی رپورٹرز اور یوٹیوبرز سے ہونے والی ملاقات کا احوال سنایا جس میں چیف جسٹس نے اپنی عمران خان سے عقیدت کا ڈنکے کی چوٹ پر اظہار کیا۔ یہاں تک کہ جب وہ عمران خان کے بارے میں گفتگو کررہے تھےتو ان کا چہرہ فرطِ جذبات سے تمتما رہا تھا ۔ ذرائع نے تصدیق کی کہ یہ ملاقات عیدالاضحیٰ سے ایک روز قبل ہوئی تھی جس میں صدیق جان، احمد عدیل سرفراز اور عابد عندلیب شامل تھے۔

اسدطور نے کہا کہ اس ملاقات کے دوران کئی موضوعات زیر بحث آئے جن میں فوج اور مبینہ طور پر ججوں پر ڈالے جانے والے دباؤ، پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان، برادر ججز اور دیگر مسائل شامل ہیں۔

گفتگو کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مبینہ طور پر کہا کہ دیکھیں 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور وہ آئسولیشن میں ہیں۔ انہیں تنہا کیا جا رہا ہے۔ فوجیوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ یہ عمران خان کو کبھی نہیں توڑ سکتے۔ جتنا وہ دلیر اور بہادر ہے یہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ فوج اپنی کوششوں میں ناکام ہوگی۔

انہوں نے حکومت کے بارے میں غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ دنوں میں انہوں نے کچھ فیصلے لکھے ہوئےہیں جو حکومت کو ’ٹھیک‘ کر دیں گے۔

چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں جج صاحبان کے دھڑوں کے حوالے سے بھی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میرا جو  8 رکنی دھڑا ہے صرف وہی سپریم کورٹ میں کام کرتا ہے باقی جو 7 ہیں وہ سیاست کرہے ہیں۔ اس گروپ میں چیف جسٹس سمیت جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید اورجسٹس حسن اظہر رضوی پر مشتمل ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ جج ہمیں کام نہیں کرنے دے رہے اور تنگ کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس بندیال نے مطیع اللہ جان، عبدالقیوم صدیقی اور حسنات ملک سمیت کچھ صحافیوں پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔حسنات ملک کا نام لیتے ہوئے انہوں نے ایکسپریس ٹریبیون سے وابستہ رپورٹر کی ایک کہانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرے بارے میں یہ کہا گیا کہ میں منافق ہوں۔ قرآنی آیات پڑھتا ہوں لیکن کرتا کچھ اور ہوں۔ میرے ساتھ کتنی زیادتی ہو رہی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وہ سادہ آدمی ہیں سیاست کھیلنے میں کوئی دلچسپی یا مہارت نہیں۔ صرف آئین اور قانون پر چلنا چاہتا ہوں۔ بلکہ یہ ججوں کا دوسرا گروہ جوجسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل ہے، وہ ان کے خلاف سیاست کر رہا ہے۔

چیف جسٹس نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے بارے میں ریمارکس دیے کہ ان جیسا ایماندار جج تو کوئی ہے ہی نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کچھ غلط نہیں کیا۔ لیکن دوسرا گروپ صرف سیاست کی خاطر سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ریفرنس لایا ہے۔

اجلاس میں کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی صاف ستھرے جج ہیں لیکن دوسرا گروپ صرف سیاست کی خاطر سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ریفرنس استعمال کر رہا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ اور سردار طارق مسعود بہت اچھل رہےتھے تو میں نےریفرنس سردار طارق مسعود کے حوالے کر دیا ہے۔ اب وہ فائل ایک ماہ سے زائد عرصہ سے اس کے پاس ہے لیکن اسے اس فائل میں کچھ نہیں ملے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے جسٹس سردار طارق مسعود کو دانستہ پاناما لیکس کیس سونپا تھا۔ یہ آرٹیکل 184(3) کا کیس تھا اور میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ اس کیس میں کیا کرتے ہیں۔

پاناما لیکس کیس پر حال ہی میں سردار طارق مسعود کو نشان زد کیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے جان بوجھ کر عدالت کے تیسرے سینئر ترین جج کو صرف جانچنے کے لیے دیا۔

چیف جسٹس بندیال نے مزید کہا کہ پانامہ کیس پر جسٹس مسعود کے فیصلوں کو دیکھتے ہوئے، وہ جانتے تھے کہ وہ فوجی عدالتوں کے کیس میں بھی کیا کریں گے کیونکہ وہ پہلے ہی ان کا تجربہ کر چکے تھے۔

لاپتہ صحافی عمران ریاض خان کےحوالے سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ فوجیوں کا طریقہ واردات ہی یہ ہوتا ہے۔ جب ایجنسیوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ کوئی خاص لاپتہ شخص کہاں ہے لیکن وہ اسے تلاش کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اسے چھوڑ دیں گے۔

کچھ صحافیوں نے چیف جسٹس بندیال کو بتایا کہ لاپتہ صحافی کے اہل خانہ پر شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ خاندان سے گارنٹی مانگی جا رہی ہے کہ واپسی پر عمران ریاض کم از کم چھ ماہ تک وی لاگز ریکارڈ یا پوسٹ نہیں کریں گے اور نہ ہی سوشل میڈیا کا کوئی استعمال کریں گے۔

اس پر چیف جسٹس بندیال نے نوٹ کیا کہ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔فکر نہ کریں۔ عمران ریاض خان جلد  واپس آجائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں بیان نہیں کر سکتا کہ ہم پر فوج کا کتنا دباؤ  ہے۔ کئی ججوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ارباب محمد طاہر کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تقریباً تمام ججز حال ہی میں مجھ سے ملنے آئے اور شکایت کی کہ انہیں فوج کی طرف سے بے پناہ دباؤ کا سامنا ہے اور انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس بندیال نے انہیں ثابت قدم رہنے اور جھکنے سے انکار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ برداشت کریں۔

انہوں نے جسٹس محسن اختر کیانی اور ان کے خلاف حال ہی میں دائر ریفرنس کی طرف اشارہ کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب وہ حال ہی میں جسٹس قاضی محمد امین کی نماز جنازہ میں شریک تھے تو وہاں محسن اختر کیانی سے ملاقات ہوئی اور ان کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے انہیں ثابت قدم رہنے کی تلقین کی اور مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ انہوں نے جسٹس کیانی سے کہا کہ وہ شیر ہیں اور انہیں ڈٹ رہنا چاہیے۔

’مخالف گروپ‘ کے ججز پر تبصرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ بہت بڑا ’منافق‘ ہے۔  چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ وہ اپنے چیمبر میں جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ فیصلہ لکھ رہے تھے جب یہ میرے  چیمبر میں آئے اور پودا لگانے کے لیے کہا.جب  چیف جسٹس بندیال نے اس سے معذرت کرنے کی کوشش کی تو جسٹس شاہ نے انہیں بتایا کہ ایک ہجوم چیف جسٹس کا پودا لگانے کا انتظار کر رہا ہے۔

چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ میں نے بڑی خوشی سے اتفاق کیا۔ لیکن جب وہ اپنے چیمبر سے باہر نکلے تو منصور علی شاہ جا کر جسٹس عیسیٰ کے چیمبر کے باہر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ سینئر ترین جج بھی اس میں شامل ہوں گے۔

چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ میڈیا اکٹھا کیا ہوا تھا۔ یہ سب کیمرے کے سامنے دکھاوے کے لیے کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے ججز متحد ہیں۔ لیکن بعد میں دوبارہ مجھے تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ انہوں نے بہت تنگ کر رکھا ہے۔ مجھے پہلے سے علم ہے کہ جب یہ چیف جسٹس بنا تو یہ کیا کرے گا اور یہ کن کے ساتھ مل کر یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ یہ میڈیا اور صحافیوں کے ساتھ کیا کرے گا آپ لوگوں کو بعد میں اندازہ ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس عیسیٰ ان سے مشاورت کیے بغیر پارلیمنٹ میں گیا۔لیکن جب جسٹس عیسیٰ کو اجلاس میں شرکت اور حکومتی ارکان کے ساتھ بیٹھنے پر لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا  تو وہ خود کو بچانے کے لیے میرے پاس آیا۔میں نے اسے کہا کہ فکر نہ کرو اور صرف وضاحت جاری کرو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پھر اسی طرح جب جسٹس عیسیٰ کی ایک نجی تقریب سے ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں جسٹس عیسیٰ نے مجھ سے سلام نہیں لیا اور منہ موڑتے نظر آئے تو سینئر ترین جج دوبارہ شکایت کرنے ان کے پاس آگئے۔

چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ جسٹس عیسیٰ نے ان سے اس معاملے پر تردید کرنے کو کہا تو انہوں نے کہا کہ ویڈیو تمہارےٰ متعلق ہے اور تمہیں ہی وضاحت جاری کرنی چاہیے۔ بعد میں جسٹس عیسیٰ نے وضاحت جاری کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹو ریویو کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹو ریویو ریفرنس کا جائزہ لیا ہے۔ جب ایک فریق کو نہیں سنا گیا ہو یا پھر تعصب ثابت کیا جا سکے تو  کیوریٹو ریویو  سنا جاسکتا ہے ورنہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے فیصلے کا مسودہ تیار کر چکے ہیں اور جلد لکھیں گے۔ امکان ہے کہ وہ اسے جلد ہی برخاست کر دیں گے۔

فوجی عدالتوں کے کیس میں جہاں جسٹس عیسیٰ اور جسٹس مسعود نے بنچ سے خود کو الگ کر لیا۔ چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ سماعت ختم ہونے کے بعد کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو وہ جسٹس عیسیٰ باہر کھڑے تھے اور چیف جسٹس بندیال سے پوچھا کہ اب کیا کریں گے؟ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بنچ کیس کی سماعت جاری رکھے گا۔جسٹس عیسیٰ نے پھر پوچھا کہ کون سے جج کیس سنیں گے؟ میں نے کہا کہ جسٹس شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت باقی جج اس کی سماعت کریں گے۔

چیف جسٹس بندیال نے دعویٰ کیا کہ جسٹس شاہ اور جسٹس آفریدی دونوں اب بھی کچھ ‘کام’ کرنا چاہتے ہیں لیکن جسٹس عیسیٰ اور دیگر ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب چیف جسٹس بندیال سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ کیوں نہیں بنایا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ فل کورٹ بنچ ہے اور انہوں نے تمام دستیاب ججوں پر مشتمل ایک بینچ بنایا ہے۔

جسٹس احمد علی ایم شیخ کی ترقی پر چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ترقی دینے کے حق میں ہیں۔

چیف جسٹس بندیال نے وضاحت کی کہ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی رائے تھی کہ چیف جسٹس شیخ مالی طور پر کرپٹ شخص ہیں۔ ایسا ہی موقف جسٹس سجاد علی شاہ کا تھا۔ اس بات کی آزادانہ تحقیقات کی کہ کیا چیف جسٹس شیخ بدعنوان ہیں۔لیکن وہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے ثابت ہو کہ جسٹس شیخ کرپٹ تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے بعد انہوں نے جسٹس شیخ سے سندھ سے عدالت میں ہونے والی بھرتیوں کے بارے میں پوچھا۔جس پر جسٹس شیخ ناراض ہوئےاور جواب دیا کہ یہ سندھ ہائی کورٹ ہے تو مقامی لوگوں کی ہی بھرتی کروں گا نا۔ چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ بات تو ٹھیک کر رہا ہے۔

چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ میں ججز کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بھی موجود تھے، انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے شکایت کی کہ چیف جسٹس شیخ صوبائی حکومت کی بات نہیں سنتے۔جب چیف جسٹس شیخ سے اس معاملے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ صوبائی حکومت صرف سفارشیں کرتی ہے میں کوئی سفارش نہیں سنتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہمیں نے دل میں سوچا کتنا ایماندار ہے، کوئی کرپشن بھی ثابت نہیں ہوئی۔ میں قائل ہو گیا کہ ان کی ترقی کرنی ہے۔ جسٹس شیخ سے کہا کہ آپ کا تین سال سے کوئی رپورٹ شدہ فیصلہ نہیں آیا۔ تو انہوں نے وقت مانگا اور ایک ماہ میں ان کے فیصلے آنے لگے۔

جسٹس عیسیٰ کی جانب سے چیف جسٹس شیخ کا نام تجویز کیے جانے کے بعد ان کو ویلیویٹ کرنے والا تھا لیکن دو ججوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ چیف جسٹس شیخ کو ترقی نہ دیں اور میرے پاس کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔

اسد علی طور نے کہا  کہ چیف جسٹس بندیال نے ان ججز کا نام تو نہیں لیا لیکن انہوں نے واضح اشارہ کیا تھا کہ جن دو ججوں نے انہیں چیف جسٹس شیخ کی تعیناتی کے خلاف مشورہ دیا تھا وہ جسٹس منیب اختر اور محمد علی مظہر تھے۔

وی لاگ میں کہی گئی 70 فیصد باتیں جھوٹ ہیں

اس دوران میٹنگ میں موجود صحافیوں میں سے ایک صدیق جان نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کے ساتھ ہماری ہونے والی ملاقات سے منسوب ایک یوٹیوب وی لاگ میں کہی گئی 70 فیصد باتیں جھوٹ ہیں۔

خاص طور پر انہوں نے فوج اور عمران خان کے حوالے سے چیف جسٹس سے منسوب تبصروں کی تردید کرتے ہوئے مزید کہا کہ چیف جسٹس نے فوج اور عمران خان کے حوالے سے کوئی ایسی بات نہیں کی جو کہ بیان کی گئی ہے۔

https://twitter.com/SdqJaan/status/1676198071485743105?s=20

چیف جسٹس سے منسوب کی جانے والی باتیں بھی درست نہیں

علاوہ ازیں صحافی عدیل سرفراز کی جانب سے بھی اس بات کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ 27 جون کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے ان کے چیمبر میں ملاقات ہوئی۔ میٹنگ میں ہم 3 صحافیوں بشمول میرے (صدیق جان، احمد عدیل سرفراز اور عابد عندلیب) کے علاوہ وہاں کوئی اور موجود نہیں تھا اور ہم میں سے کسی نے بھی ایسی کوئی بات نہیں سنی۔ ملاقات سے متعلق جو باتیں رپورٹ کی جارہی ہیں وہ غلط ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان اور فوج کے حوالے سے ایسی کوئی بات نہیں کی۔

عدیل سرفراز نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ چیف جسٹس کی جانب سے دیگر جج صاحبان کے حوالے سے منسوب کی جانے والی باتیں بھی درست نہیں۔

دوسری جانب اس معاملے پر سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔