پاکستانی میڈیا پر عائد سنسر شپ کا تجزیہ کرنے کے لیے محمد ضیاءالدین سے بہتر کوئی اور شخص نہیں ہو سکتا، وہ وطن عزیز میں صحافت کا معتبر ترین حوالہ ہیں۔ اس مضمون میں وہ میڈیا کی صنعت کے ان مسائل کا ذکر کر رہے ہیں جن کا سامنا انہیں مقتدر قوتوں کی جانب سے کرنا پڑ رہا ہے۔
جب ملک 2018 میں داخل ہوا تو پاکستان میں موجود میڈیا نے اپنے اوپر غیر روایتی قدغنوں کو عائد ہوتے ہوئے پایا۔ یہ دباؤ اس قدر شدید تھا کہ صحافی اپنی رپورٹوں میںمعلومات کے معیار پر سمجھوتہ کرنے لگے تاکہ مقتدرہ کی جانب سے انہیںکسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔نو گو ایریاز بڑھتے جا رہے تھے اور ملک عام انتخابات کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ایک منتخب وزیر اعظم کو سپریم کورٹ گھر بھیج چکی تھی۔ اس کی جگہ ایک اور وزیر اعظم نے پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کہ قیادت سنبھالی اور اس دوران وفاق اور صوبوں میںعام انتخابات کے انعقاد کیلئے نگران حکومتوں کے قیام کا عمل بھی جاری ہو گیا۔ یہ سب سیاسی تلاطم کے دنوں میں ہوا اور میڈیا کو حقائق کے بارے میںپابند رہنے پر مجبور کیا گیا۔ اور ستم یہ تھا کہ قدغنیں عائد کرنے والوں کی جانب سے اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی تحریری ہدایات جاری نہیں کی گئیں۔ اس لئے صحافیوں کیلئے یہ مشکل ہو گیا کہ وہ اس بے چہرہ مدیر کا نام لیتے جس نے انہیں ذاتی ساکھ اور اپنے شعبے پر سمجھوتہ کرنے کیلئے مجبور کیا۔
بلوچستان اور فاٹا کے بارے میں مفصل رپورٹنگ پر مکمل قدغن تھی۔ جنہوں نے اس زبانی ہدایت نامے کی خلاف ورزی کی انہیں مصائب کا سامنا کرنا پڑا جبکہ جو اس زبانی ہدایت نامے پر من و عن عمل کرتے رہے ان پر صحیح وقت پر صحیح دروازے کھلتے چلے گئے۔ ریاست نے واضح طور پر میڈیا کی آزادی محدود کر دی اور ایسا کرنے کیلئے معلومات تک رسائی کو روکا گیا۔صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا اور کئی بار ان کے خلاف تشدد کا پرچار بھی کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں اب میڈیا کے ادارے اور صحافی حساس نوعیت کے معاملات پر رپورٹنگ کرنے سے کتراتے ہیں۔گذشتہ چند ماہ کے دورانپرنٹ اور براڈ کاسٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے بیشمار صحافیوں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران بیرونی مداخلت کی شکایت کی ہے۔ مزید برآں سیلز اورڈسٹریبیوشن ایجنٹوں نے ڈان منیجمنٹ کی شکایت کی تصدیق کی،جو ان کے اخبار کی ملک بھر میں ترسیل روکنے کے حوالے سے غیر قانونی مداخلت تھی۔
جسٹس قاضی عیسیٰ فائز نے تحریر کیا تھا کہ "کیا ٹیلی ویژن چینل جھوٹ بول رہے تھے کہ ملک کے مختلف حصوں میں ان کی نشریات کوتعطل کا شکار بنایا گیا یا بند کیا گیا اور انہیں تبدیل کیا گیا اور ایسا کچھ قوتوں یا ان اندرونی قوتوں نے کیا جو ملک میں کام کر رہی تھیں"۔
https://youtu.be/MJu7wFOC-oU
بڑے پیمانے پر خودساختہ سینسر شپ نے سپریم کورٹ کے جج قاضی عیسیٰ فائز کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کروائی جنہوں نے بیس دنوں پر محیط فیض آباد دھرنے کی سماعت مکمل کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا کہ" کیا ٹیلیوژن چینل جھوٹ بول رہے تھےملک کے مختلف حصوں میںان کی نشریات کوتعطل کا شکار بنایا گیا،بند کیا گیا اور انہیں تبدیل کیا گیا اور ایسا کچھ قوتوں یا ان اندرونی قوتوں نے کیا جو ملک میں کام کر رہی تھیں"۔
پاکستان کے ممتاز دانشور آئی اے رحمٰن نے6 دسمبر 2018کو ڈان کیلئے لکھے جانے والے اپنے ایک مضمون (ہیومن رائٹس پرائیرٹیز) میںاجاگر کیا کہ اس طرحکی سینسر شپ پہلے کبھی عائد نہیں کی گئی۔ممتاز لکھاری محمد حنیف نے 2 دسمبر2018 کو اپنی کتاب ریڈ برڈزکی افتتاحی تقریب کے موقع پر ایک انٹرویو میں کہا کہ "اگر میں اپنی مرضی سے کچھ لکھنا بھی چاہوں، پھر بھی گذشتہ چند ماہ سے میں نے سوچنا شروع کر دیا ہے کہ اس شخص کا کیا ہو گا جسے میری تحاریر چھاپنے کا مورد الزام ٹھہرایا جائے گا"۔
انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے اگست 2018 میں وزیر اعظم عمران خان کو لکھے گئے اپنے خط میں کہا تھا کہ کہ"میڈیا پر جاری کریک ڈاؤن ایک ایسا ماحول پیدا کر رہا ہے جو معلومات کی آزادانہ ترسیل اورکرپشن سے پاکستانی جمہوریتکیلئے ناسازگار ہے، جس کے پنپنے کاوعدہ آپ نے نیا پاکستان بنانے کی صورت میں کیا تھا"۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنے ابتدائی دور میں ہی وائس آف امریکہ کی اردو اور پشتو ویب سائٹس کو پاکستان میں پابندی کا شکار کرنے میں مصروف ہو گئی جو کہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے اور میڈیا کی آزادی کے مستقبل پر اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔بلکہ پاکستان میں آزاد میڈیا اس وقت سخت مشکلات کا سامنا کر رہا ہے جن میںاخبارات کی ترسیل اور فروخت میں پابندیاں اور حکام کی جانب سے ٹیلی وژن چینلوںکی نشریات کو روکے جانا ہے۔
"فیس بک کی حالیہ شفافیت کی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی حکومت کی جانب سے انہیں تحریری مواد پر پابندیاں لگانے کی سب سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں۔ جن کی تعداد 2,203 تھی، جو دنیا بھر سے موصول شدہتحریری مواد کو روکنے کی شکایات کا 14 فیصد ہیں"۔
خوف کی فضا میڈیا کوریج کو متاثر کرتی ہےاور میڈیا کے ادارے انتظامیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار رہتے ہیں کہ وہ مختلف مسائل پر بات نہ کریں جس میں سرکاری اداروں اور عدلیہ پر تنقید بھی شامل ہے۔ جو امر حیران کن ہے وہ یہ ہے کہ عالمی ٹیکنالوجی کی کمپنیوں نے حکومت کی سینسرشپ کی درخواستوں کو ماننا شروع کر دیا ہے،انہیں "تحریری یا وڈیو مواد پر پابندی"لگانے کا کہا جاتا ہے۔فیس بک کی حالیہ شفافیت کی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی حکومت کی جانب سے انہیں تحریری مواد پر پابندیاں لگانے کی سب سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں۔ جن کی تعداد 2,203 تھی جو دنیا بھرسے موصول شدہ تحریری مواد کو روکنے کی شکایات کا 14 فیصد ہیں"۔
https://youtu.be/FVuL4xhlRq0
ٹویٹر، جسے حکومتوں کی درخواستیں مسترد کرنے کے لئے جانا جاتا ہے، نے حال ہی میں پاکستانی ٹویٹر صارفین کو جن میں جلاوطن پاکستانی بھی شامل ہیں جو ریاستی اداروں کی دھمکیوں کے باعث جلاوطن ہیں، نوٹس بھیجے ہیں کہ وہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید مت کریں۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی اور ایف آئی اے بہت زیادہ تعداد میں درخواستیں بھیج رہے ہیں اور الیکٹرانک جرائم کے انسداد کے ایکٹ 2016 کےوسیع اختیارات کے تحت کمپنیاں ان درخواستوں پر عملدرآمد کر رہی ہیں۔ فریڈم ہاؤس نے اپنی عالمی رپورٹ جو دسمبر 2018 میں شائع ہوئی، میں پاکستان کو مسلسل ساتویں سال انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سےآزاد قرار نہیں دیا۔ رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی درجہ بندی گزرتے سالوں کے ساتھ مزید تنزلی کا شکار ہو رہی ہے۔
“2017 میں رسائی میں مشکلات کے حوالے سے پچیسممالک میں سے پاکستان کا نمبر انیسواں تھا اور 2018 میں اس کا نمبر بیسواں تھا۔صارفین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے انڈکس جس نے پاکستان کو 40 ممالک میں سے 33واں نمبر دیا تھا،اس نے 2018 میں پاکستان کو 33 واں نبمر دیا”
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن جو ایک تحقیقیادارہ اور این جی اوہے اور آن لائن آزادی اظہار، پرائیویسی، ڈیٹا کی حفاظت اور خواتین کے خلاف آن لائن ہراسانی کے شعبہ جات میں کام کرتا ہے، اس نے پاکستان کے متعلق رپورٹ مرتب کی۔رپورٹ میںانٹرنیٹ کی آزادی کے حوالے سے 100 ممالککی فہرست میں پاکستان کو 73واں نمبر دیا گیا۔ جو کہ گذشتہ سال کی درجہ بندی سے دو پوزیشنیں مزید کم تھا۔رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی کہ انٹرنیٹ کی آزادی انرجحانات کے باعث ممکن ہوئی جو 2017 میں شروع ہوئے اور بعدمیںآن لائن سرگرمیوں کے باعث تشدد اور خوف و ہراس کے باعثبتدریج کم ہوتے چلے گئے۔انٹر نیٹ بند کرنے اور سیاسی اختلاف کرنے والوں کے خلاف سائبر کرائم قوانین کے استعمال نے موجودہ زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی تقریر اس وقتپابندی کی زد میں تھی جبملک انتخابات کی جانب بڑھ رہا تھا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ووٹنگ کے عمل سے پہلے بہت سی سیاسی جماعتوں کی حمایت کرنے والے بوٹس بھی منظر عام پر آئے جن میں سے اکثر نے غلط معلومات پھیلائیں۔ رپورٹ میں اس بات پر تاسف کا اظہار کیا گیا کہ حکومت نے قومی سلامتی کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اس کے نام پر سوشل میڈیا کو بند کرنے اور پابندیاں لگانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ برتاؤ ابلاغ کے دیگر ذرائع کے ساتھ بھی کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے والی مہمات کے باعث انٹرنیٹ سے ہٹ کر اصل زندگی میں بھی اس کا منفی اثر پڑا۔ پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کو گرفتار کرنے اور سزائیں دینے کا سلسلہ جاری رہا جبکہ گرفتاری کے دوران تشدد اور جنسی زیادتی ایک اور بڑا مسئلہ بن کر ابھرا۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور زیر استعمال ڈیوائسز پر تکنیکی حملوں کی بھی رپورٹیں ممظر عام پر آئیں۔ این جی اوز،اپوزیشن اورسرگرم کارکنوں کی ویب سائٹس پر سائبر حملوں کا سلسلہ جاری رہا گو ان میں سے بہت کم واقعات کو رپورٹ کیا گیا۔ گذشتہ جنوری اور اپریل میںڈان نے یہ بتایا کہ اس کی ویب سائٹ پر ٹارگٹ سائبر حملے کیے گئے۔بلوچستان اور ماضی میں فاٹا کہلائے جانے والے علاقوں میں مسلسل انٹرنیٹ کی بندش کا عمل جاری رہا۔
"بہت سے جانے مانے نسبتاً ترقی پسند صحافیوں کو اپنی ٹی وی اینکر کی پوزیشنوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ان میں مطیع اللہ جان (وقت نیوز) طلعت حسین (جیو ٹی وی) نصرت جاوید (ڈان ٹی وی) یا ٹی وی ٹاک شو کے شرکا (امتیاز عالم) شامل ہیں۔ معمولی سے اختلاف رائے کو بھی چپ کروانے کے عمل نے ٹیلی وژن پر فضول مباحث کو جنم دیا"۔
ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد نے انٹرنیٹ کی آزادی کے حوالے سےگذشتہ ایک برس میں کوئی بھی پیش رفت نہ ہونے پر تاسف کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ "ہم نے ڈریکونین قوانین اور ضوابط کے نتائج دیکھے ہیں جنہوں نے انٹرنیٹ کلچر میں بنیادیں بنائیں جہاںسینسر شپ اور سیاسی اظہار رائے کو جرم قرار دے کر سزاؤں کا اطلاق کیا گیا اور اب یہعمل رفتہ رفتہ قبولیت کی سند حاصل کرتا جا رہا ہے"۔ بہت سے جانے مانے نسبتاًترقی پسند صحافیوں کو اپنی ٹی وی اینکر کی پوزیشنوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ان میںمطیع اللہ جان (وقت نیوز) طلعت حسین (جیو ٹی وی) نصرت جاوید (ڈان ٹی وی) یا ٹی وی ٹاک شو کے شرکا (امتیاز عالم) شامل ہیں۔
معمولی سے اختلاف رائے کو بھی چپ کروانے کے عمل نے ٹی وی چینلوں پر فضول مباحث کو جنم دیا۔موجودہحالات میں پاکستانی میڈیا کا ایک حصہ جو ریاست کی اچھی فہرست میں شامل نہیں ہے اسے کبھی غدار تو کبھی بے ایمان قرار دیا جاتا ہے۔ یہ مقتدرقوتوںکا محبوب مشغلہ ہے جسے صحافت اور اس شعبے کے باعث اٹھنے والی تنقید کو دبانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (CPNE) نے کئی مواقع پر ملک میں آزادی صحافت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ میڈیا اس وقت سخت پابندیوں کا شکار ہے۔ گو تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کی حوصلہ افزائی کرنے کا وعدہ کیا تھا "جس نے الیکٹرانک اور اشاعتی صحافت کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اپنے لئے قوانین خود طے کرنے تھے"لیکن یہ سب اسی کے دور حکومت میں ہو رہا ہے۔
https://youtu.be/nXO3fgs94Gs
تحریک انصاف نے انتخابی منشور میں یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ ویج بورڈ کے فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے قوانین بنائے جائیں گے اور اس بات کو ممکن بنایا جایا جائے گا کہ میڈیا کے ادارے صحافیوں کو تنخواہیں اور بونس وقت پر ادا کریں۔ تحریک انصاف نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ "ہم یہ بھی ممکن بنائیں گے کہ میڈیا کے اداروں کے مالکان ان علاقوں میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو انشورنس، ٹریننگ اور حفاظت مہیا کریں جہاں بدامنی ہے اور دیگر صحافیوں کو بھی یہ سہولیات مہیا کریں"۔ تحریک انصاف نے پیمراکے ادارے کو بھی خود مختار بنانے کا وعدہ کیا تھا "تاکہ یہ کسی بھی حکومت کیلئے الیکڑانک میڈیا کی آزادی پر قدغنیں لگانے کیلئے بطور ہتھیار استعمال نہ ہو سکے"۔ ہمیں صرف ادھر ادھر سےکہانیاںسن کر پتہ لگتا ہے کہکیسے میڈیا اور صحافیوں کو سیلف سینسرشپ پر مجبور کیا گیا ہے۔ "اور وہ لوگ جو اپنی کہانیاں بتاتے ہیں وہ منظر عام پر نہیں آنا چاہتے"۔محسوس ہوتا ہے کہ ملکی میڈیا پر قبرستان جیسی خاموشی چھا چکی ہے کیونکہ نہ تو یہ غیر اعلانیہ قدغنوں کے بارے میں بات کر رہا ہے جن کے باعث جبری طور پر خود ساختہسینسرشپ کا اطلاق میڈیا پر کیا گیا ہے بلکہ وہ میڈیا جو مختلف صنعتوں میں چند لوگوں کو بھی ملازمتوں سے نکالے جانے پر آسمان سر پر اٹھا لیتا تھا، نہ تو اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی معاشی بدحالی کے باعث بند ہونے اور نتیجتاًصحافیوں کو ملازمت سے نکالے جانے پر کوئی بات کر رہا ہے اور نہ ہی صحافیوں کی احتجاجی ریلیوں کو دکھانے کی ہمت جٹا پا رہا ہے۔
پنجاب، بلوچستان اور سندھمیں اخبارات تقسیمکرنے والے(ڈسٹیبیوٹرز) نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط عائد کرتے ہوئے ڈان کے الزامات کی تصدیق کی کہ فوجی رہائشی علاقوں اور ان سے ملحقہ علاقوں میں ڈان اخبار کی تقسیم پر بیحد اثر پڑا۔ نواز شریف کے ڈان اخبار کو 12 مئی 2018 کو دیے جانے والے انٹرویو کے بعد اخبار کی ترسیل کو 20 مختلف شہروں میں دانستہ روکا گیا اور اس کے علاوہ کنٹورنمنٹ کے علاقوں،فوجی سکولوں اور دفاتر میں بھی اس کی ترسیل کو بند کیا گیا۔ اور اس کے نتیجے میں سیرل المیڈا جس نے یہ انٹرویو کیا تھا اسے غداری کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ہاکروں نے شکایت کی کہڈان اخبار کی ترسیل کرتے ہوئے انہیں فوجی اہلکاروں کی جانب سے مسلسل ہراسانی، دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔کچھ اخبارات کی ترسیل کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے اخبارات کو خریدنے والوں کی معلومات بھی فراہم کرنا پڑیں۔ ڈان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 6 اکتوبر 2016کے بعد اسخبر کوچھاپنےجسے ڈان لیکس کا بھی نام دیا جاتا ہے اسے آئی ایس پی آر کے ذیلی اداروں کی جانب سے اشتہارات کی بندش کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ان اداروں میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور دوسرے تجارتی و کاروباری ادارے بھی شامل ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کیاگست 2018 کی رپورٹ کے مطابق (میڈیا کی اظہار رائے پر عائد قدغنیں) جسے پاکستان پریس فاؤنڈیشن نے بھی 2018 کی میڈیا کی رپورٹ کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں شامل کیاگیا، پنجاب اور گلگت بلتستان میں بہت سے کیبل آپریٹرز نے یہ شکایت کی کہ انہیں چند ٹی وی چینلز کو کیبل پر بند کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ احکامات انہیں فون پر موصول ہوئے اور انہیں بتایا گیا کہ ان سے ایجنسیوں یا ریاست کے اہلکار مخاطب ہیں،اور انہیں تنبیہہ کی گئی کہ جیو ٹی وی کو چینلوں کی فہرست سے نکال دیا جائے یا اسے آخری نمبروں پر ڈال دیا جائے تاکہ اس تک لوگوں کی رسائی کم ہو سکے۔
جن کیبل آپریٹرز نے رضاکارانہ طور پر یہ معلومات فراہم کیں ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ احکامات ماننے پڑے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ اگر انہوں نے احکامات کی تکمیل نہیں کی تو ان کا کاروبار یا تو بند کروا دیا جائےگا یا اس پر حملہ ہو گا۔ ڈان ملک کا سب سے زیادہاثرو رسوخ رکھنے والا اخبار ہے جبکہ جیو کے بڑی تعداد میں دیکھنے والےاور جنگ اور دی نیوزکےمشترکہ قارئین اسے میڈیا کی مارکیٹ میں اول درجہ دلواتے ہیں۔ان دو اداروں کو نشانہ بنانے کے باعثساریمیڈیا کی صنعت میں بہت جلد ہی یہ واضح پیغام پہنچ گیا کہ اگر ملک کے دو بڑے میڈیا کے اداروں کی نشریات روکی جا سکتی ہیں یا ان کے اخبارات کی ترسیلات میں رخنے ڈالے جا سکتے ہیں تو چھوٹے میڈیا اداروںکو فوراً وہی بیانیہ اختیار کرنا چاہیے جس کا انہیں کہا جائے بصورت دیگر انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔
وہ موضوعات جو ممنوعہ کہلاتے ہیں ان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ، پشتون تحفظ موومنٹ، بلوچ علیحدگی پسند اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن جیسا کہ ماما قدیر، پانامہ کا مقدمہ اور نیب کے ریفرنسز، اور نواز شریف کی نااہلی اور گرفتاری شامل ہیں"۔
زبانی نصیحت جو میڈیاکو فون کے ذریعے یا ان کے دفاتر آ کر کی جاتی ہے وہ اس بات سے متعلق ہوتی ہے کہ کیا کچھ نشر یا شائع نہیں ہونا چاہیے۔وہ موضوعات جو ممنوعہ کہلاتے ہیں ان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ، پشتون تحفظ موومنٹ، بلوچ علیحدگی پسند اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن جیسا کہ ماما قدیر، پانامہ کا مقدمہ اور نیب کے ریفرنسز، اور نواز شریف کی نااہلیاور گرفتاری، عدالتی متنازعہفیصلوں کا ذکر،عدالتوں کے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرنے، اور فوج سے متعلق تبصرے شامل ہیں"۔کچھ افراد جو میڈیا کی صنعت میں منیجمنٹ کے عہدوں پر فائز ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں نواز شریف کیلئے سابق وزیراعظم کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے "مجرم" اور "سزایافتہ" کے القابات استعمال کرنے کا کہا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کو جو دیگر موضوع ناپسند ہیں ان میں تحریک انصاف پر تنقید بھی شامل ہے۔ایک اور نصیحت جو کہ نشریاتی اداروں کو کی گئی وہ یہ تھی کہ وہ تحریک انصاف کی ریلیوں کو زیادہ سے زیادہ نشر کریں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے جلسوں کو کم وقت دیں۔ ایک اور مسئلہ جو اٹھایا گیا وہ "دوستانہ چائے کے کپ" کا تھا،جو کہذرائع کے مطابق ریاستی ایجنسیوں کا کسی کو طلب کرنے کا روایتی طریقہ کار ہے اور جس میں قومی سلامتی کے مسائل،ادارتی پالیسیوں اور حتیٰ کے رپورٹروں تک کے متعلق سوالات پوچھے جاتے ہیں"۔
بہت سے اخباری اور ٹی وی چینلوں میں کام کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ "حکم عدولی" کا عام طور پرنتیجہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر گمنام اکاؤنٹس سے کردار کشی کی صورت میں نکلتا ہے اورمیڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف تشدد کے پرچار تک جا پہنچتا ہے اور اگر وہ خواتین ہوں تو عصمت دری کی دھمکیاں دی جاتی ہیں"۔
https://youtu.be/XVg6Q5koF7E
نصیحت یا ہدایاتسول بیوروکریٹس، آئی ایس پی آر کے دفتر سے جاری کی جا سکتی ہیں اور انہیںمنیجمنٹ کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ روگردانی کرنے والے صحافیوں سے براہ راست بات چیت کرنے کے علاوہ ریاست یا تفتیشی ایجنسیاں ٹی وی چینل اور اخبارات کے مالکان سے بھی براہ راست رابطہ کرتی ہیں اور انہیں نیب یا ایف آئی کے کیسوں میں الجھا کر ان کے اخبارات،ٹی وی چینل یا مرکزی کاروبار کو بند کرنے کی دھمکیاں دیتی ہیں یا شرائط نہ ماننے کی صورت میں اشتہارات بند کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔بہت سے اخباری اور ٹی وی چینلوں میں کام کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ "حکم عدولی" کا عام نتیجہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر گمنام اکاؤنٹس سے کردار کشی کی صورت میں نکلتا ہے اورمیڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف تشدد کے پرچار تک جا پہنچتا ہے اور اگر وہ خواتین ہوں تو عصمت دری کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔کئی صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ریاست یا تفتیشی ایجنسیوں کی جانب سے سوالات کیلئے بلایا گیا اور ان سے بیرونی فنڈنگ اور علیحدگی پسندوں سے روابط کے بارے میں تفتیش کی گئی۔ ایک سینئر اینکر کا کہنا ہے کہ "تکنیکی خرابی" کو انتظامیہ اکثر جواز بنا کر "حساس" موضوعات پر مبنی پروگراموں کو نشر نہیں کرتی۔ اس کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اینکرز کو ٹی وی چینلوں کی جانب سے اعتماد میں لیتے ہوئے یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ کیا باتیں نشر کر سکتے ہیں اور کیا نہیں۔ اس اینکر نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ انتظامیہ اس کے پروگراموں میں سے حساس حصے حذف کرکے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھیج دیتی تھی تاکہ ان کیپسندیدگی حاصل کر سکے۔ اس کے مطابق یہ فعل اسے مزید غیر محفوظ بنا رہا تھا۔اسے یہ ڈبل گیم لگتی ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ بھی اینکر کو اس کے پروگرام کے وہ حصے دکھا کر جو ٹی وی انتظامیہ نے حذف کر دیے ہوتے ہیں اس پر مخلص نہ ہونے کے الزامات عائد کر سکتی ہے۔ اس کے باعث انتظامیہ اور ملازمین میں اختلافات جنم لیتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں کم سے کم 7مدیروں اور رپورٹرز نے گواہی دی ہے کہ انہیں ہدایات دی جاتی رہیں اورہدایات کی تعمیل نہ کرنے کی صورت میں سخت نتائج بھگتنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں، جن میں گرفتاری کی دھمکیاں، تشدد یا موت شامل تھے۔
زیادہ تر کا کہنا ہے کہ انہیں تنبیہہ کی گئی کہ وہ علیحدگی پسندوں کو کوریج نہ دیں اور ریاستی اداروں اور حکومتی محمکوں کے متعلق منفی حقائق پر مبنی رپورٹنگ نہ کریں۔ ایک ایڈیٹر اور ناشر جس نےرشوت کی لالچ اور پانچ دفعہ زندگی گنوانے کی دھمکیوں کے باوجود یہ ہدایات تسلیم نہیں کیں اس پرغیر ملکی ایجنسیوں سے پیسے لینے کا الزام عائد کر دیا گیا۔ اس کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔ وہ ابھی بھی پابند سلاسل ہے۔
"بہت سے صحافیوں نے الزام عائد کیا کہ اسٹیبلشمنٹ صحافی برادی کے ایسے افراد کو انعامات سے "نوازتی" ہے جو اس کے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔ انعامات کی فہرست میں غیر ملکی دورے، پلاٹ اور دیگر آسائشات کی فراہمی، کرئیر میں آگے بڑھنے کے مواقع، نقد رقم، اشتہارات اور حکومتی نوکریاں دینے کے وعدے شامل ہیں"۔
مجموعی طور پرمسلسل خوف و ہراس کی فضا اور خود ساختہ سینسر شپ پر عمل کی وجہ سے معروضی صحافت کو نقصان پہنچاہے۔ اس نے نوکری پیشہ صحافیوں پر اثر ڈالا ہے جن میں سے چند نے کام کرنے سے انکار کر دیا یا نوکری چھوڑ گئے۔ اس کے باعث اخبارات بھی مشکلات میں گھر چکے ہیں جنہیں مذہبی شدت پسندوں،علیحدگی پسندوں، قوم پرستوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر ان کی خبروں کو شائع نہ کیا جائے۔بہت سے صحافیوں نے الزام عائد کیا کہ اسٹیبلشمنٹصحافی برادی کے ایسے افراد کوانعامات سے "نوازتی" ہے جو اس کے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔ انعامات کی فہرست میں غیر ملکی دورے، پلاٹ اور دیگر آسائشات کی فراہمی، کیرئیر میں آگے بڑھنے کے مواقع، نقد رقم، اشتہارات اور حکومتی نوکریاں دینے کے وعدے شامل ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے اس قدر آزادانہ طریقے سے یہکام انجام دینے کی ایک بہت بڑی وجہ ملازمت پیشہ صحافیوں کا یک زبان ہو کر آواز بلند کرنے کے عمل میں مکمل ناکامی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس بھی منقسم ہے۔سوشل میڈیا استعمال کرنے والے صارفین کو بھی نصیحتیں اور ہدایات جاری کرنے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔فوج کی پالیسیوں پر کسی بھی قسم کی تنقید یا شدت پسندوں کے تشدد پر بحث بھی اور ہدایات کو جنم دیتی ہے۔ صحافیوں کو آئی ایس پی آر اور ایف آئی آئے کی جانب سے اس بارے میںنصیحت کی گئی اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان اداروں نے سوشل میڈیا صارفین کو ان کی آن لائن سرگرمیوں سے متعلق تفتیش کیلئے بنا کسی سرکاری حکم کے،طلب کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ کچھ صحافیوں نے تسلیم کیا کہ انہیں چند مخصوص ٹویٹس ڈیلیٹ کرنے کیلئے خصوصی درخواستیں موصول ہوئیں۔
ایک خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ اسے اپریل 2018 میں پشتون تحفظ موومنٹ کی ریلی سے ایک رات قبل قید کیا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے بندوق کا بٹ مارا گیا اور دھکا دے کر اس کا سر دیوار پر مارا گیا۔
جنوری 2018 میں صحافی طہٰ صدیقی اغوا کیے جانے کی کوشش سے بچ نکل جانے میں کامیاب ہو گئے لیکن ان کا لیپ ٹاپ، سفری دستاویزات اور فون چرا لیے گئے۔ اس کے فوراً بعد وہ جلا وطن ہو گئے۔ بعد میں طہٰ نے "سیف نیوز روم" کے نام سے ایک ویب سائٹ کھولی تاکہ میڈیا کے اندر کے لوگ خودساختہ سینسرشپ کو نمایاں کر سکیں لیکن اس ویب سائٹ کو فوراً بلاک کر دیا گیا۔ایک خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ اسے اپریل 2018 میں پشتون تحفظ موومنٹ کی ریلی سے ایک رات قبل قید کیا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے بندوق کا بٹ مارا گیا اور دھکا دے کر اس کا سر دیوار پر مارا گیا۔ اسے غدار قرار دیا گیا اور انسداد دہشت گردی کے محکمے کے لاہور دفتر میں ایک رات کیلئے قید تنہائی میں رکھا گیا۔اس طرح پشتون تحفظ موومنٹ کی کراچی میںمئی 2018کی ریلی سے تین دن قبل اس کے کمپیوٹر میں ایک وڈیو لنک کے ذریعے وائرس بھیجا گیا اور اس کا انٹرنیٹ ڈیٹا کنکشن ایک ماہ کیلئے بند کر دیا گیا۔
https://youtu.be/sJcxbvakwC8
روزنامہ دی نیشن کی کالم نگارگل بخاری کا مختصر وقت کیلئے اغوا دہشت گردی کے ایک اقدام سے کم نہ تھا اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ گذشتہ اکہتر برسوں کے دوران پہلے کبھیبھی کسی خاتون صحافی کو اغوا کر کے جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ گل بخاری کو لاہور کے محفوظ ترین علاقے میں سے اغوا کیا گیا۔ یہ ایک ریڈ زون قسم کا علاقہ ہے جہاں کوئی بھی فوج اور پولیس کی مختلف چوکیوں پر اپنی شناخت کروائے بنا نہیں گھس سکتا۔ شاید جنہوں نے یہ جرم کیا وہ اپنی شناخت کے بارے میں کوئی بھی شائبہ نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ یہ واقعہ اور اس طرح کے دیگر واقعات غالباً صحافی برادریکو ڈرانے کیلئے اشارے تھے تاکہ وہ مکمل طور پر سر تسلیم خم کر دیں۔ ریاست اس طرح کے طریقے اپناتے وقت قوم کیلئے ان کے مضر اثرات چاہے وہ وقتی ہوں یا مستقبل سے متعلق، ان کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتی ہے۔