سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ میڈیا نے فیض آباد دھرنے سے متعلق عدالتی فیصلہ سیلف سینسرشپ کے باعث نظر انداز کیا‎

سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ میڈیا نے فیض آباد دھرنے سے متعلق عدالتی فیصلہ سیلف سینسرشپ کے باعث نظر انداز کیا‎
نیا دور نے جمعے کے روز اپنے نئے لائیو پروگرام "سینئرز ٹاک" کی پہلی قسط کو اپنے فیس بک پیج کے ذریعے نشر کیا۔ اس پروگرام میں مطیع اللّٰہ جان، مرتضی سولنگی،عبدالقیوم صدیقی، عصمت اللّٰہ نیازی، شاہد رحمان اور محمد ضیاالدین نے شرکت کی۔ یہ مشہور صحافی سپریم کورٹ کے فیض آباد دھرنے سے متعلق حالیہ فیصلے پر بات چیت کیلئے اکٹھے ہوئے تھے۔ پروگرام کا آغاز مطیع اللّٰہ جان نے مکمل عدالتی فیصلہ پڑھ کر کیا۔

میڈیا نے اس فیصلے کو نظر انداز کیا

صحافی مطیع اللّٰہ جان نے کہا کہ جس طرح میڈیا سپریم کورٹ کے دیگر فیصلوں پر گھنٹوں بات چیت کرتا ہے اس طرح سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر بات چیت نہیں کر پایا۔ محمد ضیاالدین کا کہنا تھا کہ میڈیا کا اس فیصلے پر بات نہ کرنے کی وجہ سیلف سینسرشپ تھی جس کا ذکر اس عدالتی فیصلے میں بھی کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ہاؤسز کے مالکان کو سیلف سینسر شپ کے احکامات دیے جا رہے ہیں۔ ضیاالدین نے کہا کہ "روزنامہ ڈان کی ترسیل کس نے روکی؟ اگر اس سوال کا جواب مل جائے تو دیگر سوالات کے جوابات بھی مل جائیں گے"۔

https://www.youtube.com/watch?v=6Q6ILT0RUgA

دو رکنی بنچ اور نفاذ

جب یہ پوچھا گیا کہ کیا سپریم کورٹ کے قائم کردہ بنچ میں ججوں کی تعداد سے کوئی فرق پڑتا ہے تو مطیع اللّٰہ جان نے جواب دیا کہ نہیں۔ دو رکنی ججوں پر مشتمل بنچ کا فیصلہ سپریم کورٹ کا ہی فیصلہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عملدرآمد کروانے کیلئے بنچ اس لئے تشکیل نہیں دیا گیا کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خیال میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عصمت اللّٰہ نیازی کا کہنا تھا کہ ایک نگران بنچ کا تشکیل دیا جانا ضروری تھا جو اس فیصلے کے نفاذ کو ممکن بناتا اور یہ بھی ممکن بناتا کہ پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے درمیان جن لوگوں نے افراتفری مچائی انہیں قانون کی گرفت میں لایا جائے۔

https://www.youtube.com/watch?v=d8604_tFBgo

پارلیمنٹ کو خفیہ ایجنسیوں کے اختیارات کا تعین کرنا چاہیے

جیو نیوز کے سینئر صحافی عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو خفیہ ایجنسیوں کے دائرہ کار کا تعین کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کو اپنا اختیار عدالت کے روبرو پیش کرنے کا حکم دیا، جسے ایک بند لفافے میں پیش کر دیا گیا۔ آئی ایس آئی سے پوچھا گیا کہ کن قوانین کے تحت یہ ایجنسی چلائی جاتی ہے اور اس کا اختیار کیا ہے، اور ان سوالات پر کوئی جواب نہیں آیا۔ عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے پھر دنیا کی پانچ سرفہرست خفیہ ایجنسیوں جن میں ایم آئی فائیو اور سی آئی اے بھی شامل ہیں ان کے دائرہ کار اور قوانین کا ذکر کیا جس کے تحت وہ کام کرتی ہیں۔ "یہ فیصلہ اس قدر طاقتور ہے کہ اس کے باعث اس ضمن میں قانون سازی بھی کی جا سکتی ہے"۔

دھرنے کے دوران تشدد کو روکنے کیلئے فوج کی مداخلت غیر قانونی تھی

محمد ضیاالدین کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک کے دھرنوں کے دوران حکومت مظاہرین کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے تیار تھی لیکن مسلح افواج نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ایسا نہ کیا جائے وگرنہ ہنگامے مزید پھیل جائیں گے۔ ضیاالدین کا کہنا تھا کہ فوج کا اس معاملے پر حکومت کو مشورہ دینا غیر قانونی تھا۔ "فوج نے صورتحال کو اس نہج تک پہنچایا۔ محض چند جتھے احتجاج کیلئے باہر نکلے تھے اور فوج نے حکومت کو ان سے معاملات طے کرنے کا مشورہ دے دیا۔ فوج نے معاملات کو اس نہج پر پہنچایا"۔

https://www.youtube.com/watch?v=6zqL3HF2cgc