27 اکتوبر 2021 کو نیا دور پر سینیئر صحافی حسن مجتبیٰ کی سندھودیش ریوولیوشنری آرمی سے متعلق ایک تحریر شائع کی گئی تھی جس پر ورلڈ سندھی کانگریس کی چیئرپرسن ڈاکٹر روبینہ شیخ نے کچھ اعتراضات اٹھائے ہیں۔ نیا دور کو بھیجے گئے اپنے جواب میں انہوں نے یہ اعتراض بھی اٹھایا ہے کہ ہمیں حسن مجتبیٰ کی تحریر کو شائع نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس سلسلے میں ہم اپنی صفائی میں محض اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ حسن مجتبیٰ ایک سینیئر صحافی ہیں۔ ان کے مضمون سے اختلاف بالکل کیا جا سکتا ہے لیکن کسی بھی قسم کی آواز کی سنسرشپ ہماری ادارتی پالیسی کا حصہ نہیں۔ ان کی تحریر پر اعتراض آپ کا حق ہے اور آپ کے اعتراض کو بھی اسی پلیٹ فارم پر شائع کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
جب میں نے حسن مجتبیٰ صاحب کا ایک کالم پڑھا جو 27 اکتوبر 2021 کو urdu.nayadaur.tv پر شائع ہوا، مجھے بہت مایوسی ہوئی کہ کیسے ایک معزز خبر رساں ادارے نیا دور نے ایک خبر کا ٹکڑا شائع کیا جو کہ ایک جھوٹی خبر تھی اور حقیقت کو افواہوں اور ذاتی آرا میں مدغم کرنے کی خاطر گمنام ذرائع کے حوالے پیش کرتے ہوئے الزام تراشی اور پھر اپنے ذاتی فہم کے مطابق بغیر کسی دلیل کے وضاحتیں کرنے کی کوشش میں مضمون لکھا گیا۔
مجھے اس بات کا خاص طور پر دلی رنج ہوا کہ حسن مجتبیٰ صاحب کی طرف سے سندھی بلوچ فورم (SBF) کے تحت 2001 میں قیام پزیر ہونے والے سندھیوں اور بلوچوں کے تاریخی اتحاد کا حوالہ دیا گیا ہے۔ خاص طور پر محترم عطاء اللہ مینگل صاحب، ورلڈ سندھی کانگریس (WSC) اور بالاچ مری صاحب کا ذکر کیا گیا۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ میں خود (SBF) کے بانیوں میں سے ایک ہوں۔
شہید بالاچ مری اور میں نے مل کر (SBF) کا چارٹر لکھا۔ اور ہم نے متفقہ طور پر بالاچ صاحب کو (SBF) کا پہلا کنوینر اور محترمہ امبر ھسبانی صاحبہ کو اس کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔ اس دوران ہم نے سخت محنت اور لگن سے کام کیا۔ چونکہ وہ طالب علمی کا دور تھا اور اس وقت اپنے مستقبل کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی نوکریوں سے فارغ وقت بچا کر ہم اپنی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہتے۔
حسن مجتبیٰ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ 'ہندوستانی سرپرستی' میں عمل میں لائی گئی۔ یہ سراسر الزام ہے اور محترم مینگل مرحوم کی سات دہائیوں سے زیادہ اخلاقی سیاست، محترم بالاچ کی شہادت اور تین دہائیوں سے ورلڈ سندھی کانگریس کی سندھ کے لئے بہادر اور اصولی بین الاقوامی وکالت کی سراسر بے عزتی کے مترادف ہے۔
اس کے علاوہ ایک بہادر سندھی خاتون کے بارے میں بے بنیاد الزامات اس تحریر کا حصہ بنائے گئے۔ سورٹھ لوہار اور وائس آف مسنگ پرسنز آف سندھ (VMPS) کے بارے میں غلط افواہیں اور پھر پیچھے ہٹنے کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آپ کے ایڈیٹوریل سٹاف نے ایسی تحریر کیوں شائع کی۔ خاص طور پر جب پاکستانی ریاست کا مکمل ڈھانچہ اپنی تمام تر قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے سندھی اور بلوچ اقوام کے حقِ خود ارادیت کی تحریکوں کو سبوتاژ کرنے اور بدنام کرنے کے لئے ہر ممکن طریقہ استعمال کر رہا ہے۔
جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل کے معاملات حقیقی اور اہم ہیں۔ ہزاروں سندھی، بلوچ اور پختون عوام ان کا شکار ہیں۔ آپ کی اشاعت ایسے معاملات اور واقعات کو اجاگر کرتی رہی ہے۔ اس کے باوجود یہ آرٹیکل ایسے بےرحم مظالم کا ایک جواز پیش کرتا ہے اور پاکستانی ریاست کو ایک سکینڈل اور گپ شپ کے ذریعے لاتعلقی کے زمرے میں لاتا ہے۔نیا دور جیسے ذرائع سے ایسے مضمون کی اشاعت غیر متوقع تھی۔ جھگڑے کی سیاست اور تشدد کے خلاف رائے قابلِ تعریف ہے۔ اور پر عزم مخلص آوازوں کی جائز جدوجہد کو نقصان پہنچائے بغیر بھی یہ مضمون لکھا جا سکتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے حسن مجتبیٰ صاحب نے وہ راستہ اختیار نہیں کیا۔