ابتدا میں اس مشن کے مقاصد میں زحل کے حلقوں اور چاندوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شامل تھا۔ مگر اس مشن سے سب سے زیادہ اہم معلومات زحل کے چاند انسلیدس کے بارے میں حاصل ہوئی۔
اگرچہ کیسینی خلائی گاڑی کو 2017 میں زحل کی سطح سے ٹکرا کر تباہ کر دیا گیا تھا مگر اس سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو ابھی تک جانچا جا رہا ہے اور حال ہی میں اس حوالے سے کچھ غیر معمولی نتائج حاصل ہوئے ہیں جو 2 اکتوبر 2019 کو 'رائل ایسٹرونامیکل سوسائٹی' کے ماہانہ نوٹس میں شائع ہوئے اور سب سے اہم امر یہ ہے کہ اس تحقیقی ٹیم کی سرکردگی پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر نذیر خواجہ نے کی ہے جو اس وقت جرمنی میں مقیم ہیں اور فری یونیورسٹی برلن سے وابستہ ہیں۔
ان کا شمار فلکیاتی حیاتات یا ایسٹروبایولو جی کے نامور سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اس سے قبل جون 2018 اور مارچ 2019 میں ان کی تحقیق 'نیچر اور سائنس' جیسے مؤقر سائنس جرنلوں میں شائع ہوچکی ہے۔ انہوں نے پاکستان میں ایسٹرو بایولوجی کی ترویج کے لیے ایک نیٹ ورک بھی تشکیل دیا ہے جو ملک میں فلکیاتی حیاتات کی ترویج کے لیے کوشاں ہے۔
ڈاکٹر نذیر کی تحقیق کیا ہے؟
ڈاکٹر نذیر خواجہ کی ٹیم نے انسلیدس کے زیریں سمندر کے نیچے واقع ہائیڈرو تھرمل وینٹس میں نائٹروجن اور آکسیجن پر مشتمل ایسے کم ماس والے مالیکیول دریافت کیے ہیں جو زنجیر نما ہیں۔
کیمیائی سائنس میں ایسے مالیکیولز کو 'ایرومیٹک' کہا جاتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر نسبتاً بڑے نامیاتی مالیکیول بناتے ہیں۔ زندگی کے لیے لازمی اجزا جیسے پروٹین، امائینو ایسڈ ایسے نامیاتی مالیکیولزپر مشتمل ہے۔
ان مرکبات کو امائنز کہا جاتا ہے اور یہ پانی میں حل پزیر ہیں۔ یہ مرکبات مالیکیول کرہ ارض پر واقع سمندروں کے ہائیڈرو تھرمل وینٹس میں بھی پائے جاتے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ زمین پر زندگی کی ابتدا (خوردبینی حیاتات) انہی سے ہوئی ہوگی۔
لہذا ڈاکٹر نذیر خواجہ کی یہ تحقیق اس حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ انسان نے اپنے سیارے سے باہر کسی دوسرے سیارے اور چاند پر زندگی کی ابتدا کے لیے لازمی اجزا کی موجودگی دریافت کرلی ہے۔